بلاول بھٹو وفاقی آئینی عدالت کے حق میں اتنے سرگرم کیوں ہیں؟

  • بلاول بھٹو زرداری مختلف بار کونسلز سے خطاب میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام کو ناگزیر قرار دے رہے ہیں۔
  • بعض حلقے اس معاملے میں بلاول بھٹو کے متحرک ہونے پر سوال اُٹھا رہے ہیں۔
  • پیپلزپارٹی نے میثاقِ جمہوریت میں آئینی عدالت کے قیام پر اتفاق کیا تھا: رہنما پیپلزپارٹی
  • آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لیے بلاول بھٹو کا متحرک ہونا تعجب کا باعث نہیں ہے: سینئر صحافی مظہر عباس
  • آئینی عدالت کے قیام کی بینظیر بھٹو بھی بات کرتی تھیں: تجزیہ کار سہیل وڑائچ

اسلام آباد -- آئینی ترمیمی بل کی منظوری میں ناکامی کے باوجود حکمراں اتحاد کی جانب سے اس متنازع بل کا دفاع کیا جا رہا ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری مجوزہ آئینی پیکج اور وفاقی آئینی عدالت کے حق میں ان دنوں خاصے متحرک نظر آتے ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اس آئینی پیکج کو عدلیہ پر حملہ قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کر رہی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری ملک کی مختلف بار کونسلز سے خطاب میں وفاقی آئینی عدالت کو عدالتی نظام کے لیے ناگزیر قرار دے رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کی ان سرگرمیوں کو میڈیا میں بھرپور کوریج مل رہی ہے۔

خیال رہے کہ رواں ماہ 15 ستمبر کو حکومت نے مجوزہ آئینی ترمیمی مسودے کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس طلب کیے تھے۔ تاہم مسودے کی منظوری کے لیے درکار دو تہائی اکثریت نہ ہونے پر یہ معاملہ التوا کا شکار ہو گیا تھا۔

مجوزہ آئینی مسودے میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام، چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ، آئینی عدالت کے ججز کی عمر 68 برس کرنے اور آرٹیکل 63 اے میں ترمیم سمیت دیگر ترامیم شامل تھیں۔

مسودے کی منظوری کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ارکان اہمیت اختیار کر گئے تھے۔ لہذٰا حکمراں اتحاد اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے مولانا سے کئی ملاقاتیں کی تھیں۔

مولانا فضل الرحمان نے آئینی پیکج کی منظوری میں تعاون سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں اب 'ایکسٹینشن' کا رجحان ختم ہونا چاہیے۔

بلاول بھٹو کے اس معاملے میں اچانک متحرک ہونے پر بعض حلقے سوال اُٹھا رہے ہیں، تاہم پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان 2006 میں ہونے والے میثاقِ جمہوریت میں وفاقی آئینی عدالت پر اتفاق کیا گیا تھا۔

آخر بلاول بھٹو زراری اس معاملے میں اتنے متحرک کیوں ہیں؟ اور اس میں پیپلزپارٹی کا کیا فائدہ ہے؟ اس حوالے سے وائس آف امریکہ نے سیاسی تجزیہ کاروں اور سیاسی رہنماؤں سے بات کی ہے۔

'وکلا رکاوٹ بن سکتے ہیں، اسی لیے بلاول متحرک ہیں'

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لیے بلاول بھٹو کا متحرک ہونا تعجب کا باعث نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی بعض معاملات پر اختلاف کے باوجود تحریکِ انصاف کی مخالفت میں ایک ہیں۔

اُن کے بقول مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو وفاقی آئینی عدالت کا سربراہ بنایا جائے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف تو اس کی مخالفت کر ہی رہی ہے، تاہم وکلا برادری کی جانب سے بھی اس کی بھرپور مخالفت کا خدشہ ہے۔ لہذٰا بلاول بھٹو وکلا برادری کو اعتماد میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ اس معاملے میں بظاہر تو مولانا فضل الرحمان تحریکِ انصاف کے مؤقف کے قریب ہیں۔ لیکن پھر بھی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح انہیں منایا جائے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ آئینی عدالت کے قیام کی بینظیر بھٹو بھی بات کرتی تھیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایک دلیل یہ ہے کہ مکمل جمہوریت ہو اگر وہ نہیں ہے تو دوسری دلیل یہ ہے کہ جتنی جمہوریت ہے وہ رہے اور جمہوریت کے لیے اسپیس بڑھائی جائے۔

سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ اگر چھوٹے صوبوں کی سپریم کورٹ میں نمائندگی ہوتی تو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا نہ ہوتی۔

میثاقِ جمہوریت اور وفاقی آئینی عدالت

پیپلزپارٹی کے اہم رہنماؤں نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پیپلزپارٹی اس معاملے پر اسی لیے سرگرم ہے کیوں کہ میثاقِ جمہوریت میں وفاقی آئینی عدالت پر اتفاق کیا گیا تھا۔

رہنماؤں کے بقول پیپلزپارٹی یہ سمجھتی ہے کہ آئینی تنازعات کے حل کے لیے وفاقی آئینی عدالت ضروری ہے جس میں صوبوں کو مساوی نمائندگی ملے۔

پیپلز پارٹی اس لیے بھی آئینی ترمیم چاہتی ہے کہ 1973 کا آئین پیپلز پارٹی کے بانی قائد نے دیا اس کو بحال بھی پیپلز پارٹی نے کیا اور اب اس پر مؤثر عمل درآمد کے لیے آئینی عدالت کا قیام ضروری ہے۔

پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ آئینی ترمیم کی ضرورت ہے مگر ڈرافٹ پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔

بعض حلقوں کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی ناکامی کے بعد آئینی ترمیمی بل لانے کا کام پیپلزپارٹی نے اپنے ہاتھوں میں اس لیے لے لیا ہے کہ وہ باور کرانا چاہتی ہے کہ ملک میں سیاسی اختلافات کی فضا میں بھی پیپلزپارٹی مفاہمت سے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

بعض حلقوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی اس کام میں کامیابی حاصل کر کے مقتدر حلقوں میں نمبر بڑھانا چاہتی ہے اور چھوٹے صوبوں کو آئینی عدالت میں برابری کی بنیاد پر نمائندگی دلوا کر مزید مضبوط ہونا چاہتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما کا دعویٰ ہے کہ آئینی پیکج کی منظوری میں ناکامی کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس میں یہ طے پایا کہ مولانا فضل الرحمان کو منانے اور اس آئینی پیکج پر اتفاقِ رائے کا ٹاسک اب پیپلزپارٹی کو دیا جائے گا۔

'مسودہ دوبارہ ایوان میں لایا جائے گا'

پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پارٹی نے آئینی ترمیمی بل کا مسودہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے حوالے کیا ہے جس پر جے یو آئی مشاورت کر رہی ہے۔

پیپلزپارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان اس مسودے پر اتفاق کے بعد آئینی پیکج بل دوبارہ ایوان میں لایا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکمراں اتحاد موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی 25 اکتوبر کو ریٹائرمنٹ سے قبل آئینی مسودہ ایوان میں لانا چاہتا ہے۔ 15 اور 16 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس ہے، لہذٰا اس سے پہلے یہ آئینی مسودہ ایوان میں لایا جا سکتا ہے۔