|
نئی دہلی _ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو لوک سبھا کی کئی اہم نشستوں پر شکست ہوئی ہے لیکن سب سے چونکا دینے والی شکست ایودھیا میں ہوئی جہاں رام مندر واقع ہے۔
وزیرِ اعظم مودی نے رواں برس جنوری میں ہی بابری مسجد کی جگہ قائم رام مندر کا افتتاح کیا تھا اور انہیں امید تھی کہ مندر کے افتتاح کے بعد بی جے پی انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیت جائے گی۔
وزیرِ اعظم مودی نے ہندو مذہب کے پیشواؤں یعنی تمام شنکر آچاریوں کی مخالفت کے باوجود مندر کا افتتاح کیا تھا۔
ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کئی عشروں سے بی جے پی کی سیاست کا مرکز رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کا کام تاحال جاری ہے۔
لیکن بی جے پی کو انتخابات میں صرف ایودھیا میں ہی نہیں بلکہ 100 کلو میٹر کے دائرے میں یعنی فیض آبا ڈویژن کی تمام نشستوں پر شکست ہوئی ہے۔
البتہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں بی جے پی نے لوک سبھا کی 80 میں سے 33 نشستیں حاصل کی ہیں جب کہ کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے اتحاد کو 43 نشستیں ملی ہیں۔
اترپردیش کے حلقے فیض آباد سے بی جے پی کے ٹکٹ پر للو سنگھ دو بار کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن اس بار وہ سماجوادی پارٹی کے دلت رہنما اودھیش پرساد سے 50 ہزار سے زائد ووٹوں سے ہار گئے۔
SEE ALSO: بھارتی انتخابات میں منقسم مینڈیٹ: ’مودی اپنی مرضی سے حکومت نہیں چلا پائیں گے‘لکھنؤ کے سینئر صحافی حسین افسر کا کہنا ہے کہ بی جے پی ایسے بیشتر حلقوں میں شکست کھا گئی ہے جو ہندو مذہب کے مراکز سمجھے جاتے ہیں۔ خود وزیرِ اعظم مودی وارانسی سے ہارتے ہارتے بچے ہیں۔
گزشتہ الیکشن میں مودی نے وارنسی سے چار لاکھ ووٹوں کی برتری سے کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس بار انہیں ڈیڑھ لاکھ ووٹوں کی برتری سے کامیابی ملی ہے۔
بی جے پی نے فیض آباد کے ساتھ ساتھ ایودھیا سے متصل بستی بارہ بنکی، امبیڈکر نگر، سلطان پور، امیٹھی، شرواستی او رجونپور کی سیٹیں بھی گنوا دیں۔
گورکھپور اور اس سے آگے بلیا تک بی جے پی کا صفایا
بی جے پی فیض آباد کے قریب گونڈہ اور قیصر گنج کی سیٹ ہی بچانے میں کامیاب رہی۔ باقی نشستوں پر سماجوادی پارٹی نے کامیابی حاصل کی ہے۔ ایودھیا سے مشرق میں گورکھپور اور اس سے آگے بلیا تک بی جے پی کا صفایا ہو گیا ہے۔
یاد رہے کہ قیصر گنج بی جے پی کے طاقت ور رہنما اور ’ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا‘ کے سابق صدر برج بھوشن شرن سنگھ کا حلقہ ہے۔ ان پر خاتون پہلوانوں کی جانب سے جنسی استحصال کے الزام اور ان کے خلاف دہلی کے جنتر منتر پر مہینوں تک چلنے والی احتجاجی تحریک کے بعد بی جے پی نے ان کے بیٹے کو پارٹی ٹکٹ دیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مقامی اور قومی ایشوز کی وجہ سے بی جے پی کو کئی اہم حلقوں پر شکست ہوئی ہے جب کہ بی جے پی کی جانب سے فوری طور پر ایودھیا میں شکست پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایودھیا میں بی جے پی کی شکست پر سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر ابھے کمار کہتے ہیں کہ یہ مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کرنے کی سیاست کی شکست ہے۔ ایودھیا اور قرب و جوار کے ووٹرز نے ہندوتوا کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے۔
ان کے مطابق لوگ اب اس متعصبانہ سیاست سے اکتا چکے ہیں اور وہ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر ابھے کمار کے مطابق مہنگائی، بے روزگاری اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے کم مواقع بڑے مسائل ہیں اور یہ مسائل رام مندر کی تعمیر سے حل نہیں ہوں گے۔
لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اسد رضوی کہتے ہیں کہ حکومت نے رام مندر کی تعمیر کے لیے کئی نسلوں سے آباد رہائشیوں کے مکانوں اور دکانوں کو بہت کم قیمت پر جبراً حاصل کیا جس کی وجہ سے حلقے کے لوگ شدید ناراض تھے۔
ان کے بقول، مقامی افراد اس بات پر بھی غصہ تھے کہ جب ان سے زمینیں لی جا رہی تھیں تو بی جے پی کے رکن پارلیمان نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسد رضوی نے مزید کہا کہ بی جے پی امیدواروں نے مربوط انداز میں انتخابی مہم بھی نہیں چلائی اور ان کا خیال تھا کہ رام مندر کی تعمیر اور وزیرِ اعظم مودی کے نام کی وجہ سے وہ انتخابات جیت جائیں گے۔
بی جے پی حکومت نے ایودھیا میں بہت سے ترقیاتی کام بھی کیے ہیں جن میں ایئر پورٹ، ریلوے اسٹیشن، بس اڈوں اور سڑکوں کی جدید طرز پر تعمیر و توسیع کے کام شامل ہیں۔
مندر کی تعمیر کے بعد رام کے درشن کے لیے آنے والے یاتریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترقیاتی کاموں اور سیکیورٹی انتظامات کی وجہ سے مقامی باشندوں کو بہت زیادہ دشواریوں کا سامنا ہے۔ جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو اپنے گھروں تک پہنچنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور مقامی لوگوں کے بھی شناختی کارڈ چیک کیے جاتے ہیں۔
اسد رضوی ایودھیا میں بی جے پی کی شکست کی ایک اور وجہ دلت ووٹرز کی ناراضگی بھی بتاتے ہیں۔ ان کے بقول، سماجوادی پارٹی نے ایک دلت رہنما اودھیش پرساد کو پارٹی ٹکٹ دیا تھا جس کی وجہ سے بی جے پی کے دلت ووٹرز بھی سماجوادی کی طرف چلے گئے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مایاوتی کی پارٹی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے دلت ووٹرز اس بار منتشر ہو گئے۔ گزشتہ انتخابات میں اس کے بیشتر ووٹرز نے بی جے پی کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن اس بار انہوں نے ’انڈیا‘ اتحاد کی حمایت کی۔
SEE ALSO: رام مندر کا افتتاح،بھارت میں مذہبی آزادی کے بارے میں امریکی کمیشن کی تشویشمبصرین کا خیال ہے کہ بی جے پی کی شکست کی ایک بڑی وجہ للو سنگھ کا آئین کے خلاف دیا گیا بیان بھی ہے۔
للو سنگھ نے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ اگر بی جے پی کو 400 سیٹیں مل گئیں تو آئین کو تبدیل کر دیا جائے گا۔ اسد رضوی کے مطابق اس کا دلتوں میں بہت سخت ردعمل ہوا۔
یاد رہے کہ بی جے پی کے بعض دوسرے رہنماؤں نے بھی اسی قسم کے بیانات دیے تھے جس پر لوگوں کی بڑی تعداد بالخصوص دلتوں نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔
للو سنگھ کی شکست کے بعد بعض بی جے پی رہنماؤں کی جانب سے ایودھیا کے شہریوں کے خلاف بیانات سامنے آئے ہیں جن میں الزام لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے رام کو لانے والوں کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔
بی جے پی کے حامی ایک مقامی شہری اروند تیواری نے مقامی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ سے گفتگو میں کہا کہ "ہم رام کی پوجا کرتے ہیں لیکن اگر کسی کی روزی روٹی ہی نہ رہے تو وہ کیسے زندہ رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’رام پتھ‘ یعنی ’شاہراہِ رام‘ کی تعمیر کے وقت جن لوگوں کی دکانیں تحویل میں لے لی گئی تھیں انہیں حکومت نے دکانیں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔
اروند تیواری نے کہا کہ "ہم رام مندر بننے سے بہت خوش ہیں لیکن بی جے پی کی سیاست سے اکتا گئے ہیں۔"