ترک صدر رجب طیب اردوان نے اسی ہفتے ملک میں ہنگامی حالت کا نفاذ کیا تھا جس سے اُن کو صفائی کے عمل کو وسعت دینے میں مدد ملی، جب کہ اب تک تقریباً 60000 افراد کو یا تو گرفتار یا پھر اُن کے عہدوں سے ہٹایا گیا ہے۔ اِن میں سے زیادہ تر تعداد اُن لوگوں کی ہے جِن کا تعلق فتح اللہ گولن کی بڑی، دولت مند اور بااثر روحانی تحریک سے ہے، جو پنسلوانیا کی امریکی ریاست میں مقیم سابق امام ہیں۔
گولن نے پچھلے 17 برسوں سے ترک سرزمین پر قدم نہیں رکھا۔ لیکن، اردوان کے حامی اُن کے بارے میں سخت جذبات رکھتے ہیں۔
سونگل یلدرم ایک گھریلو خاتون ہیں جو استنبول میں ترک صدر کی حمایت میں نکلنے والی ریلی میں شرکت کر رہے ہیں۔ بقول اُن کے، ’’ہم طیب اردوان کی پرواہ کرتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ فرشتے اُن کو اپنی آفیت میں لے لیں اور فتح اللہ گولن کا خانہ خراب ہو‘‘۔
ترک سربراہ نے گولن پر متوازی ریاست قائم کرنے اور ناکام بغاوت میں کردار ادا کرنے کا الزام لگایا ہے۔
ایک وقت تھا کہ اردوان اور گولن قریبی ساتھی ہوا کرتے تھے، جس کے لیے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ وہ معتدل اسلام کے نصب العین میں یقین رکھتے تھے، جس کے لیے اُن کا خیال تھا کہ یہ سوچ بالآخر ترکی کی سیکولر ریاست کا متبادل ہوگی۔
Your browser doesn’t support HTML5
کلیئر برلنسکی ایک مصنف ہیں جو ترکی میں مقیم رہے ہیں اور جنھوں نے گولن اور اُن کی تحریک کے بارے میں بہت لکھا ہے۔ بقول اُن کے ’’اردوان زیادہ روایتی اسلام نواز ہیں، جب کہ گولن کا تعلق صوفی روایت سے ہے‘‘۔
اُن کے الفاظ میں ’’دونوں نے اِس بات پر رضامندی کا اظہار کیا کہ عمررسیدہ لوگوں کی جگہ اناطولیہ کے ایماندار شہری ملازمین کو رکھا جائے گا، اور یوں مخالفین کو اقتدار کی لڑائی کا ایندھن بننے دیا جائے‘‘۔
گولن کی تحریک کے ارکان جنھیں ’ہزمت‘ یا ’خدمت‘ تحریک کا نام بھی دیا جاتا ہے، اُس کے فروغ کے بعد تحریک کے تعلیم، فوج، انٹیلی جنس، عدالتوں، اور خاص طور پر ذرائع ابلاغ میں کافی افراد موجود ہیں۔
ندیم سینر استنبول کے ایک ادیب ہیں، جنھوں نے گذشتہ 16 برسوں کے دوران گولن کی تحریک پر تحقیق کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’دونوں پارٹنرز کے درمیان اختلافات سامنے آئے کیونکہ اردوان ایسے شخص نہیں ہیں جو کسی کے ساتھ اقتدار میں شرکت برداشت کر سکیں‘‘۔