یوکرین جنگ میں بھارت نے اب تک غیر جانبدارانہ مؤقف اختیار کیا ہے لیکن مبصرین کا خیال ہے نئی دہلی کے لیے اس کا غیرجانبدارانہ تعلق آگے چل کر نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں یوکرین پر روس کے حملے کے خلاف اب تک تین قراردادیں پیش ہو چکی ہیں اور بھارت نے ان میں سے کسی بھی قرارداد پر کے حق یا مخالفت میں ووٹ نہیں کیا۔
بھارت نے پہلے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ووٹنگ سے خود کو دور رکھا۔ اس کے بعد اس نے جنرل اسمبلی بلانے کے لیے سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی قرارداد پر ووٹنگ اور پھر جنرل اسمبلی میں ہونے والی ووٹنگ میں بھی حصہ نہیں لیا۔
اب سب کی نگاہیں اس پر مرکوز ہیں کہ جنیوا میں ہونے والے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں وہ کیا مؤقف اختیار کرتا ہے۔ توقع ہے کہ اس میں بھی روس کے حملے کی مذمت کے لیے ایک قرارداد پیش کی جائے گی۔
عالمی ذرائع ابلاغ میں بھارت کا مؤقف زیرِ بحث
بھارت کے مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں اس پر بحث چھڑی ہوئی ہے کہ آخر بھارت روس کی جارحیت کی مذمت کیوں نہیں کر رہا۔
مبصرین کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے روس اور امریکہ دونوں سے اسٹرٹیجک روابط ہیں۔
ایک طرف جہاں بھارت روس کے لیے اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے اور روس سے اس کے تعلقات سرد جنگ کے زمانے سے ہیں وہیں گزشتہ20 برس میں امریکہ سے اس کے تعلقات میں بھی بہتری آئی ہے۔ بھارت چہار فریقی گروپ (کواڈ) کا بھی رکن ہے جس میں امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان بھی شامل ہیں۔
SEE ALSO: مودی کا پوٹن کو فون؛ یوکرین تنازع بات چیت سے حل کرنے پر زورمبصرین کا کہنا ہے کہ تعلقات کی یہی نوعیت بھارت کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ امریکہ اور مغرب روس کی مذمت کے سلسلے میں ایک واضح مؤقف اختیار کرنے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔لیکن بھارت اس معاملے میں روس اور مغرب سے مساوی دوری قائم کرنے اور خود کو غیر جانبدار بنائے رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کا مظاہرہ اقوام متحدہ کے علاوہ حال ہی میں ملبورن میں ہونے والے کواڈ کے اجلاس اور میونخ کی سیکیورٹی کانفرنس میں بھی سامنے آیا تھا۔
بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کے مطابق بھارت نے روس یوکرین تنازع میں اقوامِ متحدہ اور عالمی قوانین کی اہمیت پر زور دینے کے ساتھ ساتھ علاقائی خودمختاری اور سلامتی کو برقرار رکھنے پر جو زور دیا ہے۔ ان کے بقول بھارت کے اس ردِ عمل سے ماسکو کو ایک واضح پیغام جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل میں ووٹنگ سے غیر حاضر رہنے اور اس کے بعد بھارت کی جانب سے جو بیانات سامنے آئے ہیں ان میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ ماسکو کو عالمی قوانین کا پاس رکھنا چاہیے۔
بھارت کو کن چیلنجز کا سامنا ہو سکتاہے؟
آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن نئی دہلی کے نندن انی کرشنن نے 'عرب نیوز' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے لیے دونوں فریق اہم اور ضروری ہیں اور وہ ان کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سینئر تجزیہ کار منوج جوشی کہتے ہیں کہ اس وقت بھارت واضح مؤقف اختیار کرنے سے کترا رہا ہے لیکن غیر جانبداری کی یہ پالیسی آگے چل کر اس کے لیے چیلنج بن سکتی ہے۔
اسد مرزا اس کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فی الحال ایسا نہیں لگتا کہ بھارت نے جو مؤقف اختیار کیا ہے اس کے کچھ منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن اگر یہ تنازع طول پکڑتا ہے تو اس کے مفادات متاثر ہو سکتے ہیں۔
ان کے بقول، "امریکہ نے اگر چہ بھارت پر واضح مؤقف اختیار کرنے پر زور دیا ہے لیکن وہ خطے میں بھارت کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔ اس لیے وہ اسے نظرانداز نہیں کر سکتا۔"
Your browser doesn’t support HTML5
اسد مرزا کہتے ہیں کہ بھارت کے لیے روس کی مخالفت اس لیے بھی مشکل ہے کہ اس نے روس سے ایس۔400 میزائل نظام خریدا ہے اور اس کی سپلائی شروع ہو گئی ہے۔ چین کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے اس نظام کی اسے اشد ضرورت ہے۔
امریکہ نے روس سے بھار ت کے اس سودے پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور پابندی عائد کرنے کا اشارہ دیتے ہوئے اس سے باز رہنے کو کہا تھا۔
اسد مرزا کے مطابق جہاں امریکہ اس سودے کے خلاف تھا وہیں اسے یہ احساس ہے کہ ہند بحر الکاہل خطے میں چین کی سرگرمیاں اسی ہتھیار سے روکی جا سکیں گی۔
ماسکو میں بھارت کے سفارت خانے میں ذمہ داری انجام دے والے سابق اہلکار اروند گپتا کے مطابق موجودہ حالات میں کوئی ٹھوس مؤقف اختیار کرنا نہ صرف بھارت کے لیے بلکہ دوسرے ملکوں کے لیے بھی مشکل ہے۔ ان کے بقول بھارت نے متوازن مؤقف اختیار کیا ہے۔ ایک طرف نئی دہلی نے روس کی کھل کر مذمت نہیں کی اور دوسری جانب اس نے تمام فریقین کی جائز تشویش پر توجہ دینے پر زور د یا ہے۔
SEE ALSO: یوکرین پرحملہ، مذمتی قرار داد منظور: چین سمیت پاکستان،بھارت اور بنگلہ دیش نے ووٹ نہیں دیابین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار ہرش پنت نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ چین بھارت کے لیے اسٹرٹیجک چیلنج ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے روس اور مغرب دونوں کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول بھارت کی 65 فی صد دفاعی ضرورت روس پوری کرتا ہے تو اور چین کی بڑھتی قوت کے مقابلے کے لیے اسے مغرب کی بھی ضرورت ہے۔
اسد مرزا کے مطابق جمعرات کو کواڈ کا ایک اجلاس متوقع ہے اور امکان ہے کہ اس اجلاس میں یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کی جائے گی۔ ان کے بقول نئی دہلی اس اجلاس میں بھی اپنا موجودہ موؑقف دہرائے گا۔
رپورٹس کے مطابق ولسن سینٹر امریکہ میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائرکٹر مائیکل کوگلمین نے کہا ہے کہ یوکرین جنگ نے نئی دہلی اور واشنگٹن کو اس حقیقت سے آگاہ کر دیا ہے کہ دوطرفہ تعلقات میں روس کا مسئلہ صرف اضطراب تک محدود نہیں رہے گا بلکہ وہ اس سے آگے بھی جا سکتا ہے۔
ان کے مطابق "حالیہ برسوں میں بھارت اور امریکہ کے تعلقات نئی بلندیوں پر پہنچنے کے تناظر میں نئی دہلی کا غیر جانبدار رہنا ایک جوا ہے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ایسے میں جب کہ امریکہ نے بھی اس کے مؤقف کو تسلیم کر لیا ہے، اس میں کوئی تبدیلی آئے گی۔"
مائیکل کوگلمین کے خیال میں اگر یوکرین جنگ طول پکڑتی ہے تو بھارت کو کوئی واضح اور سخت مؤقف اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔