کچرا چننے والے وائرس سے کیوں نہیں ڈرتے؟

منصور خان اور ان کی اہلیہ لطیفہ بی بی تقریبا 20 سال سے اس کچرا پٹی سے پلاسٹک اور دیگر اشیاء چننے کا کام کرتے آ رہے ہیں۔ ان کے بقول وہ اس کام سے پانچ ڈالر (375 بھارتی روپے) یومیہ کی آمدنی سے گھر کے اخراجات کے ساتھ تین بچوں کے اسکول کی فیس ادا کرتے ہیں۔
 

منصور اور ان کی اہلیہ اپنے بچوں کو کچرا پٹی کے تعفن سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ بچوں کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

چند ماہ سے کچرا پٹی پر بائیو میڈیکل فضلے کی مقدار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کے سبب ماہرین کا کہنا ہے کہ کچرا چننے والوں کی صحت کو وبائی مرض سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
 

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے تمام علاقوں سے سیکڑوں ٹن کچرا اس 52 ایکٹر رقبے پر پھیلی کچرا پٹی پر اکھٹا ہوتا ہے۔ اس میں استعمال شدہ پلاسٹک، کرونا وائرس کی ٹیسٹ کٹس، استعمال شدہ حفاظتی لباس اور نرسنگ ہومز کا فضلہ یہاں لاکر جمع کیا جاتا ہے۔
 

نئی دہلی کی اس کچرا پٹی پر کام کرنے والے سیکڑوں کچرا چننے والے دستانے پہنے بغیر کچرا چنتے ہیں۔ ان میں بچوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ ان افراد کو مسلسل وبا سے متاثر ہونے کے خطرات لاحق ہیں۔

منصور خان کی عمر  44 سال ہے اور وہ وبا کے تمام خطرات سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن ان کے پاس متبادل ذریعہ معاش نہیں ہے۔

منصور خان کہتے ہیں کہ اگر ہم یہی سوچتے رہیں کہ مرجائیں گے تو کیا ہوگا؟ اور بیمار ہوگئے تو ہمارا کیا بنے گا؟ تو ایسی صورت میں پیٹ کی آگ کس طرح ٹھنڈی ہوگئی۔ موت تو بھوکا رہنے سے بھی ہو سکتی ہے۔
 

منصور خان اس کچرا پٹی پر کام کرنے کی غرض سے ہی نہیں آتے بلکہ ان کا دو کمروں کا مکان بھی اسی کچرا کنڈی کے قریب ہے۔
 

منصور خان کی 38 سالہ اہلیہ لطیفہ بی بی کا کہنا ہے کہ انہیں تو بس یہی فکر ہے کہ ان کے بچے کسی طرح اس وبا سے محفوط رہیں۔

لطیفہ بی بی کا کہنا ہے کہ انہیں واپسی کے وقت گھر میں داخل ہونے سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں بچے کسی مرض میں مبتلا نہ ہوجائیں۔
 

دہلی میں واقع تھنک ٹینک سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرمنٹ کے بائیو میڈیکل ویسٹ کے ماہر دنیش راج  بانڈیلا نے بتایا کہ بائیو میڈیکل کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے نیشنل پلوشن ریگولیٹر کا باقاعدہ وضع کردہ پروٹوکول موجود ہے لیکن وبا کے دوران اس پرمکمل عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ ایسی صورت میں کچرا پٹی پر کام کرنے والوں میں ہیپاٹائٹس سے لے کر ایچ آئی وی تک تمام بیماریاں پھیلنے کا خطرہ ہے۔
 

منصور خان تمام خطرات اور خدشات کے باوجود ہر روز صبح گھر سے نکل کر کچرا پٹی جاتے ہیں اور دن بھر وہاں کام کرتے ہیں۔ ان کی واپسی اکثر شام میں ہوتی ہے۔ ان کی اہلیہ لطیفہ بی بی بھی ان کے ساتھ ہی کام کرتی ہیں۔ اس کے باوجود ان کی یومیہ اجرت 5 ڈالر سے زیادہ نہیں ہو پاتی۔

منصور خان کے جوتے اکثر ان کے گھر کے باہر ہی رکھے نظر آتے ہیں۔

بانڈیلا کے مطابق نئی دہلی میں یومیہ 600 ٹن طبی فضلہ پیدا ہوتا تھا لیکن کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد اس کی شرح میں 100 فی صد اضافہ ہوا ہے۔