بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے شہر سرینگر کا 'کشمیر پریس کلب' گزشتہ چند روز سے بند ہے لیکن اب مقامی حکومت نے کلب کی عمارت کو اپنی تحویل میں لے کر اس کی الاٹمنٹ منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
گو کہ کشمیر پریس کلب کے مرکزی دفتر پر یہ نوٹس لگایا گیا ہے کہ کلب کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے باعث بند کیا گیا ہے، تاہم بعض صحافی کلب کی بندش کو اس پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
بھارتی کشمیر کے صحافی اور بعض سماجی حلقے کلب کی بندش کو آزادیٔ اظہار پر قدغن کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ 'کشمیر پریس کلب' گزشتہ کئی روز سے ایک بحران سے دوچار تھا۔ ہفتے کو صحافیوں کے ایک گروپ نے کلب میں آ کر آئندہ کلب انتخابات تک انتظام و انصرام سنبھالنے کا اعلان کیا تھا۔
عبوری کمیٹی کے سربراہ محمد سلیم پنڈت نے اس موقع پر یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ کلب کی نئی گورننگ باڈی کی تشکیل کے لیے انتخابات کرائے جائیں گے لیکن اس کے لیے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی۔
کشمیر پریس کلب کا معاملہ ہے کیا؟
جولائی 2019 میں کرائے گئے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئی کلب کی گورننگ باڈی نے سلیم پنڈت اور ان کے ساتھیوں کے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔
سابقہ کلب انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ سلیم پنڈت اور اُن کے ساتھیوں نے حکومتی ایما پر پریس کلب پر زبردستی قبضہ کر لیا ہے جب کہ کلب کے اطراف میں سیکیورٹی فورس بھی تعینات کر دی گئی ہے۔
سلیم پنڈت کی قیادت میں قائم کی گئی اس عبوری کمیٹی کا اصرار ہے کہ کلب کے باہر مقامی تھانے کے اہل کار کرونا ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔
سلیم پنڈت کا کہنا ہے کہ 2019 کے انتخابات میں چنی گئی گورننگ باڈی کلب کے معاملات کو چلانے کا حق کھو چکی تھی اور یہ دو برس کی مدت پوری ہونے کے باوجود انتخابات کو التوا کا شکار کر رہی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
کلب کے نئے انتخابات کیوں نہیں کرائے جا سکے؟
منتخب صدر شجاع الحق ٹھاکور کہتے ہیں کہ کلب کے نئے انتخابات وقت پر اس لیے نہیں کرائے جا سکے کیوں کہ متعلقہ محکمے نے کلب کی ازسرِ نو رجسٹریشن میں تاخیر سے کام لیا۔
ان کے مطابق دسمبر 2021 میں کلب کی دوبارہ رجسٹریشن کے بارے میں متعلقہ ادارے کی طرف سے ایک خط موصول ہونے کے فوری بعد فروری 2022 کے وسط میں نئے انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
شجاع الحق کے مطابق 15 جنوری کو رجسٹرار آف سوسائٹیز کی جانب سے کلب کو ایک اور خط ملا جس میں اس کی دوبارہ رجسٹریشن کے معاملے کو التوا میں رکھنے کی بات کی گئی تھی۔ لہذٰا اس سے انتخابات کی راہ میں رکاوٹ آئی۔
اُنہوں نے الزام لگایا کہ اس تاخیر کے ذریعے حکومت کے من پسند صحافیوں کو کلب پر قبضے کا موقع فراہم کیا گیا۔
لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ کلب کے صدر شجاع الحق کی قیادت میں گورننگ باڈی اپنی مدت ختم ہونے کے باوجود براجمان رہی اور نئے انتخابات تک کلب کو چلانے کے لیے عبوری انتظامیہ تشکیل دینے یا اس سلسلے میں ممبرانِ کلب کو اعتماد میں لینے میں ناکام رہی۔
صحافتی تنظیموں اور سیاست دانوں کا شدید ردِ عمل
'کشمیر پریس کلب ' پر زبردستی قابض ہونے کے اس واقعے پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر اور اس کے باہر صحافتی حلقوں کی طرف سے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ایڈیٹرز گِلڈ آف انڈیا، پریس کلب آف انڈیا (نئی دہلی) ممبئی پریس کلب اور دہلی یونین آف جرنلسٹس نے کلب کے اندر مسلح پولیس کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
صحافتی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ کلب کو فوری طور پر بحال کیا جائے اور اس کی دوبارہ رجسٹریشن کی جائے۔
بعض سیاسی جماعتوں نے بھی 'کشمیر پریس کلب' میں ہفتے کو پیش آنے والے واقعے کی مذمت کی ہے۔
سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے اسے ریاستی حکومت کی کارروائی قرار دیا ہے۔
پریس کلب میں پولیس اہل کاروں کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ یہ اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے جس نے کشمیر کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔
سابق وزیرِ اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے اپنی ایک ٹوئٹ میں سلیم پنڈت کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے الزام لگایا کہ انہوں نے ہر حکومت کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سیاست دانوں پر صحافیوں کو آپس میں لڑانے کا الزام
سلیم پنڈت کی سربراہی میں قائم عبوری کمیٹی نے سیاست دانوں کی اس تنقید اور الزامات پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ ان سیاست دانوں کی مداخلت غیر ضروری ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی صحافیوں کو لڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستان کی بھی مذمت
پاکستان نے ہفتے کو پیش آنے والے واقعے کو 'کشمیر پریس کلب' پر حملہ قرار دے دیا ہے۔
اتوار کو پاکستانی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں اس اقدام کو کشمیر میں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
نوجوان صحافی کی گرفتاری
دریں اثنا 'کشمیر پریس کلب' نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک بیان میں ایک نوجوان صحافی سجاد گل کی گرفتاری کی مذمت کی تھی اور اُس کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
پولیس نے شمالی ضلع بانڈی پور سے تعلق رکھنے والے سجاد گل کے خلاف قانون کی مختلف دفعات کے تحت اس بنا پر ایک ایف آئی آر درج کی تھی کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو ڈالی تھی، جس میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ کے دوران ہلاک ہونے والے ایک عسکریت پسند کے اہلِ خانہ اور بعض دوسرے افراد کو احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔
پولیس نے کہا تھا کہ سجاد گل کی اس حرکت کا مقصد نہ صرف حکومت اور ریاست کے خلاف لوگوں میں نفرت اور ناراضی کو ہوا دینا تھا بلکہ لوگوں کو تشدد پر اکسانے کی ایک دانستہ کوشش بھی تھی۔
نیویارک میں قائم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس سمیت کئی صحافتی تنظیموں نے سجاد گل کی گرفتاری کی مذمت کی ہے اور انہیں غیر مشروط رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔