جب موٹر سائیکل سوار پیٹرول ڈلوانے کے لیے قطار میں کھڑے صحافی کے بے ضرر سوال پر رو پڑتے ہوں ۔
ٹریفک سگنلز پر جلتی دھوپ اور دھواں اگلتی گاڑیوں کے درمیان رومال اور لکڑی یا پلاسٹک کے کھلونے فروخت کرنے والوں میں بچوں اور بزرگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہو۔
خطرناک کشتیوں میں بیٹھ کر گہرے سمندروں میں ڈوب جانے والے نوجوان اسی تنکے کی تلاش میں اپنی ماؤں بہنوں کا زیور بیچنے پر مجبور ہوئےہوں ، جس کا سہارا انہیں اگر مل گیا تو ترقی اور مواقع حاصل کرنے کی خواہش صرف حسرت نہیں رہے گی۔
ایسے میں آئی ایم ایف کے قرضوں , بجلی کے بلوں اور پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں تلے دبے عوام میں پھیلی بد دلی بظاہر اتنی سنگین نظر آتی ہے کہ نئے انتخابات ، بہتر معاشی حالات کی باتیں اور نئے وزیر اعظم کا انتظار بھی انہیں کسی اچھے مستقبل کی امید نہیں دلاتا۔
ماہرین ویسے تو امید کو کوئی پالیسی نہیں سمجھتے ۔۔ لیکن ہماری اور آپ کی سوشل میڈیا فیڈز میں بجلی کے جلائے جانے والے بلوں اور انہیں ادا کرنے میں ناکام باپوں کو بے بسی کے خاموش آنسو بہاتے دیکھ کر، یہ اندازہ لگانے کے لیے کسی ماہر انہ رائے کی ضرورت نہیں کہ امید کے بغیر امکان اور ممکنات پر مبنی کوئی پالیسی نہیں بنائی جا سکتی۔
منیر نیازی مرحوم کہہ گئے ہیں کہ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے؟ کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ ۔۔۔
سیاست اور معیشت کے ماہرین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کسی ملک کی سیاسی اور معاشی تجربہ گاہ کو ٹھوس اور پائیدار حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سے بھی زیادہ، نظام کے ایک مخلصانہ اور بے غرض تسلسل کی ۔
تو چلیئے ایک سرسری نظر اس پر ڈالی جائےکہ جنوبی ایشیا کے 22 کروڑ سے زائد انسانوں کا ملک پاکستان، جس کی 60 فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، صرف 75 سالوں میں اپنے سیاسی اور معاشی سفر میں آگے کی طرف جانے کے بجائے ، ناقدین کے مطابق، ترقی معکوس کا باب کیوں بن گیا ہے؟
لیاقت علی خان کا قتل اور وزیر اعظم کے منصب پر چھایا 'آسیب کا سایہ'
یہ 16اکتوبر 1951 کا ایک نسبتا خاموش دن تھا۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان راولپنڈی شہر کے سابقہ کمپنی باغ اور موجودہ لیاقت باغ میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کرنے آئے تھے ۔
ابھی تقریر شروع ہی کی تھی کہ نامعلوم مقام سے آنے والی گولیوں نے انہیں خاموش کردیا۔ ملک کا پہلا وزیر اعظم اپنے خون میں ڈوب گیا ۔ انہیں اسپتال لے جایا گیا، لیکن وہ کاری زخموں سے جانبر نہ ہوسکے۔
لیاقت علی خان کے قتل کے بعد سے پاکستان میں جیسے وزارت عظمیٰ کا منصب کچھ مبصرین کے مطابق، ' کسی آسیب کے سائے' میں ہے۔
75 سالوں میں پاکستان میں کئی وزرائے اعظم آئے اور گئے۔ مگر کوئی ایک بھی ایسی شخصیت نہیں، جو اپنے تمام تر سیاسی قد اور قابلیت کے باوجود، منصب وزارت کے پانچ سال مکمل کرنے میں کامیاب ہوئی ہو۔
ہر وزیر اعظم کو مختلف وجوہ کی بناء پر اپنا عہدہ وقت سے پہلے چھوڑنا پڑا۔ 18 میں سے دو وزیر اعظم یعنی نواز شریف تین بار اور بے نظیر بھٹو دو بار وزیر اعظم رہیں ۔ تو مجموعی طور پر 23 بار اس منصب پر فائز رہنے والوں کو بہ وجوہ اپنے منصب سے ہٹنا پڑا۔
ان وزراء اعظم میں وہ شامل نہیں جو نگران وزیر اعظم بنائے جاتے ہیں اور جن کا کام ملک میں عام انتخابات کرواکر اقتدار منتخب وزیر اعظم کے سپرد کرنا ہوتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ کے 75 برسوں میں 30 سال یعنی کم از کم تین دہائیاں ایسی ہیں، جب ملک کا اقتدار کسی سویلین حکومت کے پاس نہیں رہا، یعنی آسان زبان میں ، ملک میں آمریت قائم رہی۔
پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے سابق سربراہ ڈاکٹر اقبال چاؤلہ کہتے ہیں کہ 'قیام پاکستان کے اولین دس بارہ برسوں میں تو حالات انتہائی غیرمستحکم رہے۔اندرونی سازشیں اس کی بنیادی وجہ تھیں کہ کوئی حکومت یا وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکے۔
لیکن پھر پہلے مارشل لا کے بعد صورت حال بدل گئی اور اسٹیبلشمنٹ نے بالا دستی حاصل کر لی اور سویلین دور حکومت میں جو بھی وزیر اعظم ان کی توقعات پر پورا نہ اترتا یا چون و چرا کرتا، تو اس کی چھٹی کروا دی جاتی۔ اور دیدہ اور نادیدہ قوتیں اس کی پشت پر ہوتیں'۔
سویلین بالادستی کا خواب اور وزرائے اعظم کی میوزکل چیئر
لیاقت علی خان کے بعد خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم بنے، انہیں اس وقت کے گورنر جنرل نے اس الزام میں برطرف کر دیا ، کہ وہ ملک میں ہونے والے مذہبی فسادات سے نمٹ نہ سکے۔
پھر محمد علی بوگرا وزیر اعظم مقرر ہوئے۔ انہیں سوا دو برس بعد استعفٰے دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
چودھری محمد علی اگلے وزیر اعظم تھے ۔ انہیں حکمراں جماعت میں اختلافات کے باعث 13ماہ میں فارغ کر دیا گیا۔
حسین شہید سہروردی ملک کے پانچویں وزیر اعظم بنے۔ انہیں بھی 13 ماہ میں طاقت کے دوسرے مراکز کے ساتھ اختلافات کے سبب بر طرف کر دیا گیا۔
ابراہیم اسماعیل چندریگر اگلے وزیر اعظم تھے۔ انہیں دو ماہ سے بھی کم عرصے میں پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے سبب استعفٰے دینا پڑا۔
نورالامین 7 دسمبر 1971 کو وزیر اعظم بنے اور موجودہ بنگلہ دیش اور اس وقت کے مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد منصب سے فارغ ہوئے۔ وزارت عظمی کی مدت دو ہفتے سے بھی کم رہی ۔
مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے بااختیار اداروں کی جانب سے حالیہ برسوں میں ملک کے مثبت امیج کے حوالے سے جس حساسیت کا مظاہرہ کیا گیا ہے، اس سے آج ایک طالب علم اپنے استاد سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اتنی مختصر مدت کے لیے وزیر اعظم بننے والوں کے آنے جانے اور مکمل چلے جانے اور پھر 1971 میں یعنی صرف 24 سال پہلے ہندوستان سے آزادی پانے کے بعد ملک کے دو لخت ہوجانے پر بیرونی دنیامیں کیا رائے قائم کی گئی ہوگی؟
ضیا الحق کا مارشل لاء اور بھٹو کی پھانسی
اگست 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو جو بنگلہ دیش بننے کے بعد ملک کے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور حکمراں رہے۔ وزیر اعظم بنے اور پھر جولائی 1977 میں جنرل ضیاءالحق کی فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہوئے۔ جیل گئے اور سزائے موت ان کا مقدر بنی۔
محمد خان جونیجو 1985 میں وزیر اعظم بنے مگر اس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیاءالحق نے تین سال دو ماہ بعد انہیں برطرف کردیا۔
بینظیر بھٹو اور نواز شریف
دسمبر 1988 میں جب فوجی حکمران جنرل ضیاء طیارے کے حادثے میں ہلاک ہو گئے ، بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں ۔ ان کی حکومت کو اس وقت کے صدر نے کرپشن کے الزامات میں برطرف کر دیا۔ ان کی وزارتِ عظمیٰ کی مدت صرف ایک سال آٹھ ماہ تک رہی ۔
اس کے بعد محمد نواز شریف وزیر اعظم بنے۔ انہیں بھی اس وقت کے صدر نے کرپشن کے ایسے ہی الزامات میں برطرف کر دیا جو بینظیر بھٹو پر لگائے گئے تھے۔ وہ اس برطرفی کے خلاف عدالت سے فیصلہ لینے میں کامیاب ہو گئے اور دوبارہ وزیر اعظم بن گئے، لیکن فوج کے ساتھ اختلافات کے سبب انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔
اکتوبر 1993 میں بینظیر بھٹو ایک بار پھر منتخب ہوکر اقتدار میں واپس آئیں لیکن اس بار بھی ان کا مقدر وہی ٹھہرا۔ اس بار گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ ان کی اپنی پارٹی کے صدر نے ہی ان کے طرز حکمرانی کو غلط قرار دے کر انہیں برطرف کر دیا۔ اس بار ان کی حکومت تین سال سے کچھ زیادہ عرصے تک قائم رہی۔
پھر 1997 میں نواز شریف دوسری بار برسر اقتدار آئے لیکن ابھی تین سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ 1999 کی فوجی بغاوت میں ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔
سال 2002 میں فوجی حکمرانی میں میر ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم بنے۔ لیکن ابھی ڈیڑھ سال سے کچھ ہی زیادہ ہوئے تھے کہ فوج کے ساتھ اختلافات کے سبب وہ مستعفی ہو گئے۔
سال 2008 میں یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم منتخب ہوئے، لیکن چار سال کے بعد سپریم کورٹ نے انہیں نا اہل قرار دے کر گھر بھیج دیا ۔ اس وقت کی برسر اقتدار پیپلز پارٹی نے راجہ پرویز اشرف کو ان کی جگہ وزیر اعظم بنادیا، جو اسمبلی کی مدت ختم ہونے تک اپنے منصب پر رہے۔
جون 2013 میں نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ انہیں تیسری بار وزیر اعظم بننے کے لیے آئین میں ترمیم کروانی پڑی۔ لیکن اس بار بھی مقدر نے یاوری نہ کی اور چار سال دو ماہ بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے اثاثے چھپانے کے الزام میں انہیں برطرف کر دیا۔
عمران خان اور 'ایک پیج کا رومانس'
اگست 2018 کے انتخابات کے بعد پاکستان کے سابق کرکٹر عمران خان ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ ان کے بارے میں کہاجاتا تھا کہ انہیں ملک کے مقتدر اداروں کی آشیرباد حاصل تھی۔ ان کے دور حکومت کے اولین سالوں میں بار بار یہ باور کروایا جاتا رہا کہ ان کی حکومت اور ملک کی فوجی قیادت' ایک صفحے' پر ہیں ۔
لیکن مبصرین جسے 'ایک پیج کا رومانس' کہہ رہے تھے، وہ بھی پانچ سال کی مقررہ مدت مکمل نہیں کر سکا۔۔ اور صرف تین سال اور چند ماہ میں انہیں وزیر اعظم ہاؤس خالی کرنا پڑا۔ پارلیمان میں اکثریت ہونے کے باوجود تحریک عدم اعتماد کے ذریعے انہیں اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا اور وہ اپنی کردہ اور نا کردہ سیاسی غلطیوں کی سزا اپنی قید اور اپنی جماعت کے لیڈروں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کے ساتھ اٹک جیل میں کاٹ رہے ہیں۔
عمران خان کے برخواست ہونے کے بعد پی ڈی ایم پر مبنی کئی جماعتوں کے اتحاد والے پرچم تلے وزیر اعظم کا منصب شہباز شریف نے سنبھالا۔ وہ ایک سال سے کچھ زیادہ عرصے تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے ۔
اب ملک کا انتظام نگران وزیر اعظم کے سپرد کیا گیا ہے، مگر معیشت کی بحالی کے وعدے لینے کے لیے تاجروں کو ملک کے فوجی سپہ سالار سے ملنا پڑ رہا ہے۔ ایسی ملاقاتیں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں۔
امید اور نامیدی کے بیچ جھولتے عوام اور پاکستان کا مستقبل
پنجاب یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد رہنے والے ڈاکٹر اقبال چاؤلہ کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ڈائیلاگ کرنا ہو گا ۔۔اس میں ملک کے مقتدر اداروں یا اسٹیبلشمنٹ کو بھی شامل کرنا ہو گا، کیونکہ ملک میں حکومت کے تین ستون نہیں رہ گئے، بلکہ ان کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ اور ان سب کو بیٹھ کر اپنی اپنی حدود کا تعین کرنا اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہو گا، کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی صورت ایسی نہیں ہے کہ ملک کو آگے بڑھایا جاسکے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب نہ صرف تمام سیاسی جماعتوں میں بلکہ خود فوج میں بھی اس ضرورت کا احساس بڑھ رہا ہے ۔۔اور ان کے بقول، جو قوت کبھی نو جماعتوں کو اور کبھی تیرہ جماعتوں کو اکھٹا کرواسکتی ہے، وہ عظیم تر مقصد کے لیے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اب بھی اکھٹا کر سکتی ہے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ یہ دیکھنے کے لیے کچھ انتظار کرنا ہوگا کہ پاکستان کی سیاسی اور معاشی تجربہ گاہ سے اب کون سا نظام ظہور میں آتا ہے، لیکن یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ انتظار کے لیے امید کی ضرورت ہوتی ہے۔۔اور امید گو کہ خود کوئی پالیسی نہیں ہوتی، تاہم آگے بڑھنے اور ترقی کے امکان کی جانب بڑھنے کے لیے لازمی اور ناگزیر ہوتی ہے۔
ہمیں اپنے کمنٹس میں بتایئے کہ آپ کے خیال میں پاکستان میں عوام کو امید دلانے کے لیے بااختیار اداروں ، عہدیداروں اور سیاستدانوں کو صرف ملک کے بارے میں مثبت امیج کی فکر کرنی چاہئے یا سیاسی نظام میں کچھ تسلسل اور پائیدار تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟، جن سے عوام کو بجلی کے بلوں ، بچوں کی فیس اور کچن کے راشن میں ہی کچھ ریلیف ملنے کی امید پیدا ہو۔۔۔ ہم آپکے خیالات جاننے کے منتظر رہیں گے۔