لبنان کے وزیرِ اطلاعات کی جانب سے یمن جنگ کو 'نامعقول' قرار دینے اور حوثی باغیوں کے پاس دفاع کا حق ہونے کے بیان پر ریاض اور بیروت کے تعلقات ان دنوں کشیدہ ہیں جس کا اثر مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک پر بھی پڑ رہا ہے۔
سعودی عرب نے لبنان کے سفیر کو واپس بھیج کر وہاں سے اپنا سفیر بھی واپس بلا لیا ہے جب کہ خطے میں سعودی عرب کے دیگر اتحادی ممالک نے بھی اپنے سفیر بیروت سے واپس بلا لیے ہیں۔
لبنان کی کابینہ میں وزیر اطلاعات کا قلم دان ملک کے ایک ٹیلی وژن گیم شو کے سابق میزبان کے پاس ہے۔
لبنانی وزیرِ اطلاعات جورج قرداحی کے بیان کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک سفارتی اور معاشی سطح پر لبنان کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں جس سے لبنان میں اتحادی حکومت کے لیے مزید مشکلات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے سخت اقدامات لبنان کے معاشی مسائل میں کئی گنا اضافہ کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ بطور اتحادی سعودی حکومت لبنان کی مدد کرتی رہی ہے۔
ریاض نے لبنان سے ہر قسم کی درآمدات پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس سے بیروت کو بہت زیادہ نقصان ہونے کا اندیشہ ہے کیوں کہ مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب لبنان کی مصنوعات کے لیے ایک بڑی مارکیٹ ہے۔
لبنان ایک زمانے تک سعودی عرب اور ایران کے درمیان تنازع کا مرکز رہا ہے۔ حالیہ کشیدگی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اس تنازع میں لبنان کی ایران نواز مسلح تنظیم حزب اللہ کے کردار کو بھی اہم سمجھا جا رہا ہے۔
مبصرین کے مطابق لبنان کی حکومت کے ایران کی جانب بہت زیادہ جھکاؤ کے بعد سعودی حکام کو محسوس ہونے لگا ہے کہ اب بیروت سے سفارتی تعلقات برقرار رکھنا مشکل ہو چکا ہے۔
تنازع کی وجہ کیا ہے؟
جورج قرداحی قبل ازیں سعودی عرب کے ملکیتی ایک ٹی وی نیٹ ورک پر ’کون بنے گا کروڑ پتی‘ کی طرز کے ایک ٹی شو کے میزبان تھے۔ یہ ٹی وی شو لبنان سمیت کئی ممالک میں انتہائی مقبول تھا۔
لبنان میں ایک آن لائن سیشن میں خطے کے نوجوانوں نے جورج قرداحی سے سوالات کیے تھے۔
اسی دوران ان سے یمن میں جاری جنگ کے حوالے سے بھی تبصرہ کرنے کو کہا گیا تھا جس پر انہوں نے یمن جنگ کو 'نامعقول' قرار دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا تھا کہ حوثی باغیوں نے کسی پر حملہ نہیں کیا اور ان کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
واضح رہے کہ یمن میں خانہ جنگی کا آغاز 2014 میں اس وقت ہوا تھا جب حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کیا تھا۔ بعد ازاں حکومت کی مدد کے لیے سعودی عرب نے 2015 میں حوثیوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا۔ یہ جنگ اب بھی جاری ہے۔ اقوامِ متحدہ یمن جنگ کو بد ترین انسانی بحران قرار دے چکی ہے۔
لبنانی وزیر جورج قرداحی نے بیان کب دیا تھا؟
جورج قرداحی کا یہ آن لائن سیشن ان کے کابینہ میں شامل ہونے اور وزیرِ اطلاعات بننے سے ایک ماہ قبل ریکارڈ کیا گیا تھا۔
لبنان کے وزیرِ اعظم نجیب میقاتی نے ستمبر 2021 میں کابینہ بنائی تھی جس میں جورج قرداحی کو شامل کیا گیا تھا۔ ان کو کابینہ میں شامل کرنے کی حمایت حکومت میں شامل مسیحی برادری کی جماعت نے کی تھی۔ یہ جماعت حزب اللہ کی بھی اتحادی ہے۔
سعودی حکام نے جورج قرداحی کے بیان کو جارحانہ قرار دیتے ہوئے اسے یمن کے حوثی باغیوں کی حمایت قرار دیا ہے۔
دوسری جانب مبصرین یہ بھی خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ جورج قرداحی کے بیان سے سعودی حکام کے غصے میں بھی اضافہ ہوا ہے اور وہ اسے لبنان پر ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
سعودی عرب کیا چاہتا ہے؟
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق لبنان کے دارالحکومت بیروت میں قائم امریکن یونیورسٹی کے ریسرچ ڈائریکٹر جوزف بوٹ کہتے ہیں کہ ریاض کو لبنان میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے پریشانی ہے۔ لیکن سعودی حکام یہ نہیں جانتے کہ اس کو کیسے کم کیا جائے۔
سعودی عرب کے طویل عرصے سے لبنان میں اتحادی مسلمانوں کے سنی مسلک کے سیاست دان ہیں۔ جو مسلکی بنیادوں پر تقسیم ملک میں وزیرِ اعظم کے انتخاب میں کردار ادا کرتے ہیں۔ البتہ سعودی عرب کو شیعہ تنظیم حزب اللہ کے حوالے سے خدشات رہے ہیں۔ اس تنظیم کی عسکری طاقت بھی ریاض کی پریشانی کا سبب ہے۔ جب کہ سعودی حکام کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اس تنظیم کا ایران نواز ہونا ہے۔
لبنان کے سابق وزیرِ اعظم رفیق حریری کو ملک میں سعودی عرب کا سب سے بڑا اتحادی تصور کیا جاتا تھا۔ البتہ 2005 میں ان کے قتل کے بعد ریاض اس طرح کے اتحادی سے محروم رہا ہے۔ ان کے قتل کے بعد سعودی عرب کا لبنان میں اثر و رسوخ کافی حد تک کم ہوا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بعض مبصرین سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کو جارحانہ پالیسی اختیار کرنے والی شخصیت قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے خارجہ پالیسی میں وقتاََ فوقتاََ مختلف ممالک کے خلاف اقدامات بھی کیے لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق ان کی پالیسی میں کوئی ربط نہ ہونے کی وجہ سے وہ لبنان میں کوئی مستقل اتحادی بنانے میں ناکام رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق لبنان میں حالیہ دنوں میں بننے والی حکومت کو سعودی عرب ممکنہ طور پر حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کے زیرِ اثر دیکھ رہا ہے۔
سعودی عرب کے سخت اقدامات
سعودی عرب کی جانب سے سب سے ڈرامائی اقدام 2017 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب اس نے مبینہ طور پر لبنان کے وزیرِ اعظم سعد حریری کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔ انہوں نے استعفے کی وجہ لبنان میں حزب اللہ کے تسلط کو قرار دیا تھا۔ البتہ سعد حریری کو بظاہر سعودی عرب میں حبسِ بیجا میں بھی رکھا گیا تھا۔
سعد حریری سعودی عرب سے واپس لبنان پہنچے تو انہوں نہ صرف اپنا استعفیٰ واپس لے لیا بلکہ ان کو حزب اللہ کی حمایت بھی مل گئی لیکن وہ سعودی عرب کی حمایت سے محروم ہو گئے۔
اس کے بعد سے ریاض اور بیروت میں تعلقات کشیدہ ہیں۔ قبل ازیں سعودی عرب نے لبنان سے درآمدات پر منشیات اسمگل ہونے کے الزامات کی وجہ سے پابندی عائد کر دی تھی۔
سعودی حکومت نے لبنان میں حالیہ دنوں میں وزیرِ اعظم نجیب میقاتی کی سربراہی میں بننے والی حکومت کی حمایت سے بھی گریز کیا ہے۔ اس کی وجہ حزب اللہ کی نجیب میقاتی کی حکومت کی حمایت قرار دی جا رہی ہے۔
لبنان میں ایک برس سے حکومت کا قیام ایک مسئلہ بنا ہوا تھا۔ نجیب میقاتی کی حکومت کے قیام پر امریکہ اور فرانس نے اس کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ مبصرین کے مطابق اس کے بعد سعودی عرب نے اس معاملے میں خود کو تنہا محسوس کیا ہے۔
ایسے میں لبنان کے وزیرِ اطلاعات جورج قرداحی کا بیان سعودی عرب کے لیے ایک سخت قدم لینے کا موقع ثابت ہوا ہے۔
سعودی عرب کے حامی ممالک
سعودی عرب نے اپنا سفیر لبنان سے واپس بلا لیا ہے جب کہ لبنان کے سفیر کو بھی اپنے ملک واپس بھیج دیا ہے۔
سعودی عرب کے اس اقدام کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں ریاض کے حامی ممالک بھی اسی نقشِ قدم پر چلے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
سب سے پہلے بحرین نے اپنا سفیر لبنان سے واپس بلایا اور ان کے سفیر کو واپس بھیجا جب کہ اس کے بعد متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور پھر کویت نے بھی ایسا ہی کیا۔
لبنان پر اثرات
سعودی عرب کے حالیہ اقدامات کو نجیب میقاتی کی حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے درآمدات پر پابندی کا مطلب یہ ہے کہ لبنان کو تجارت کی مد میں ملنے والے لاکھوں ڈالرز کا نقصان ہو گا۔ اور یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو گا جب لبنان کو شدت سے بیرونِی سرمایے کی ضرورت ہے۔
مبصرین کے مطابق اگر دونوں ممالک میں کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے تو مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں نوکریاں کرنے والے ساڑھے تین لاکھ لبنانی بھی متاثر ہو سکتے ہیں جو ان ممالک سے اپنے وطن میں اپنے عزیزوں کو رقوم بھیجتے ہیں۔
وزیرِ اعظم نجیب میقاتی اور دیگر اعلیٰ حکام جورج قرداحی سے اپیل کر چکے ہیں کہ وہ کابینہ سے مستعفی ہو جائیں۔ البتہ ان کے مستعفی ہونے کے بعد بھی صورتِ حال واضح نہیں ہے کہ دونوں ممالک میں تعلقات معمول پر آ سکیں گے یا نہیں۔
دوسری جانب حزب اللہ جورج قرداحی کی حمایت میں کھڑی ہے۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس کی خارجہ پالیسی زبردستی تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ لبنان میں انتظامی سطح پر پہلے ہی کئی مسائل ہیں جب کہ گزشتہ برس بیروت کی بندرگاہ پر ہونے والے دھماکے کے بعد اس کی تحقیقات سے اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس دھماکے میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
حزب اللہ نے تحقیقات کرنے والے جج کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ جب کہ حالیہ مہینوں میں لبنان میں کئی بڑے احتجاج بھی ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پر تشدد کارروائیوں کی وجہ سے کئی خدشات جنم لیتے رہے ہیں۔
یہ سب معاملات آئندہ برس مارچ میں ہونے والے انتخابات پر بھی اثر انداز ہوں گے۔ ان انتخابات کو حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے بھی ایک امتحان قرار دیا جا رہا ہے۔
اس رپورٹ میں مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔