کیا اتر پردیش کے انتخابات بی جے پی کے لیے ’سیمی فائنل‘ ہیں؟

فائل فوٹو

بھارت کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست اتر پردیش (یو پی) میں جمعرات سے ریاستی انتخابات کے پہلے مرحلے کے لیے ووٹنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس ریاست کے نتائج کو وزیرِ اعظم نریندر مودی کی مقبولیت کا ٹیسٹ کیس قرار دیا جا رہا ہے۔

ریاست اتر پردیش میں اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ان انتخابات میں اگر بی جے پی حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب رہتی ہے تو اس کے نتیجے میں 2024 کے مرکزی انتخابات میں اس کی مسلسل تیسری کامیابی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

بھارت میں رواں برس اتر پردیش کے علاوہ چار دیگر ریاستوں گوا، اترا کھنڈ، پنجاب اور منی پور میں بھی انتخابات ہو رہے ہیں۔ البتہ اتر پردیش کو اس لیے زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے کیوں کہ 20 کروڑ آبادی والی اس ریاست کی لوک سبھا میں 543 میں سے 80نشستیں ہیں۔ لہذٰا ریاستی اسمبلی کے انتخابی نتائج 2024 میں لوک سبھا کے انتخابات پر بھی اثرانداز ہو سکتے ہیں۔

یوپی میں سیمی فائنل؟

کرونا وائرس پھیلنے کے بعد بھارت میں مختلف ریاستوں میں یہ پہلے انتخابات ہیں۔ گزشتہ برس وبا کی شدید لہر کے دوران مرکزی اور یوپی حکومت کی کارکردگی، معاشی مسائل اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے باعث بی جے پی کو تنقید کا سامنا رہا ہے۔

اسی لیے مبصرین یو پی سمیت دیگر ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کو بی جے پی کی کارکردگی کے لیے’ریفرنڈم‘ بھی قرار دے رہے ہیں۔

خبر رساں ادراے ’رائٹرز‘ کے مطابق نئی دہلی میں قائم تھنک ٹینک ’سینٹر فار پالیسی ریسرچ‘ سے وابستہ راہل ورما کا کہنا ہے کہ اگر بی جے پی یو پی میں ناکام ہوتی ہے تو یہ اس کے لیے بڑا دھچکہ ہو گا۔ آپ یو پی کے انتخابات کو سیمی فائنل کہہ سکتے ہیں۔ 2024 میں کھیل بہت مختلف ہو گا۔

Your browser doesn’t support HTML5

بھارت میں الیکشن: ووٹنگ مشین کیسے کام کرتی ہے؟

یوپی بی جے پی کے لیے اہم کیوں؟

بے روزگاری اور دیگر انتظامی مسائل کے باوجود مذہبی ایشوز یو پی میں بی جے پی کی انتخابی مہم کا محور رہے ہیں۔

یو پی صرف اپنی بڑی آبادی اور لوک سبھا میں نشستوں ہی کی وجہ سے بی جے پی کے لیے اہم نہیں ہے۔ بھارت کی قومی سیاست میں بی جے پی کے مبینہ ہندو قوم پرست ایجنڈے کی کامیابی کا آغاز بھی یو پی ہی سے ہوا تھا۔

اتر پردیش کا شہر ایودھیا ہندو مذہب کے ماننے والوں کے لیے ایک مقدس شہر ہے اور 1992 میں اسی شہر میں تاریخی بابری مسجد کے انہدام نے ، مبصرین کے مطابق بھارت کی سیکولر بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ مسجد کے انہدام کے لیے چلنے والی تحریک سے بھارت کی سیاست میں ہندو قوم پرستی ایک بڑھتی ہوئی قوت کے طور پر سامنے آئی۔

دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعتوں کا دعویٰ تھا کہ ایودھیا میں ہندو دیوتا رام کی جائے پیدائش کے مقام پر بنائے گئے مندر کی جگہ بابری مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ 1992 میں دائیں بازوں کی ہندو تنظیموں نے اس مسجد کو منہدم کر دیا تھا اور اس کے بعد یہ معاملہ کئی برس تک بھارت کی مختلف عدالتوں میں زیرِ سماعت رہا۔

سن 2019 میں بھارتی سپریم کورٹ نے مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کرنے کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔

گزشتہ برس وزیرِ اعظم نریندر مودی نے مندر کی تعمیر کا افتتاح کیا تھا۔ نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے رام مندر تعمیر کرانے کی تحریک میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد سے بی جے پی نے مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کے لیے بھرپور مہم چلائی تھی۔

Your browser doesn’t support HTML5

بھارت میں الیکشن کیسے ہوتے ہیں؟

رام مندر کی تعمیر کی نگرانی کرنے والے ٹرسٹ کے رکن انیل مشرا نے خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی عام مندر نہیں ہے۔ یہ ایک قومی مندر ہے جو عوام کے جذبات و احساسات کا مرکز ہے۔

رام مندر کی تعمیر اور بھارت کے دیگر مقامات پر ہندو عبادت گاہوں کی بحالی بی جے پی کے سیاسی منشور کا حصہ رہا ہے۔ وہ خود کو بھارت کی ہندو اکثریت کے لیے محافظ کے طور پر پیش کرتی ہے اور اپنی اسی شناخت کے ساتھ 20 کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والی بھارت کی اہم ترین ریاست کے انتخابی میدان میں اتر رہی ہے۔

مسلمانوں کے خدشات

رام مندر کی تعمیر کے آغاز سے یوپی کے مسلمانوں میں ایودھیا جیسے واقعات دہرائے جانے کا خوف پیدا ہو گیا ہے اور بھارت میں ہندو قوم پرستوں کی بڑھتی ہوئی سیاسی قوت کے باعث ان خدشات میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اتر پردیش سخت گیر ہندوؤں کے لیے تجربہ گاہ اور بھارت کو سیکولر ملک سے ایک ہندو ملک میں بدلنے کی کوششوں کا محور ہے۔

بی جے پی سے تعلق رکھنے والے یو پی کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر ریاست کی مسلم آبادی کے خلاف اشتعال انگیزی اور امتیازی قوانین بنانے کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔

ہندوؤں کی مذہبی شناخت تصور کیے جانے والے کیسری رنگ کے لباس میں ملبوس 49 سالہ یوگی آدتیہ ناتھ اپنی شعلہ بیانی کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں اور انہیں وزیرِ اعظم نریندر مودی کا ممکنہ جانشین سمجھا جاتا ہے۔

SEE ALSO: اترپردیش اسمبلی انتخابات: بی جے پی پر 'مذہبی کارڈ' کا الزام، کیا یوگی پھر وزیر اعلیٰ بن پائیں گے؟

یوگی آدتیہ ناتھ نے یو پی میں مسلمانوں کی بین المذاہب شادیوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے قانون متعارف کرائے ہیں اور ہندو مت میں مقدس تصور ہونے والی گائے کی حفاظت کے لیے گوشت کا کاروبار کرنے والے مسلمانوں کی کئی دکانیں بند کرا دی تھیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ یو پی کے وزیرِ اعلیٰ جہاں ایک جانب ایسے قوانین متعارف کرا رہے تھے وہیں گائے کا گوشت کھانے کا الزام لگا کر ہونے والے مشتعل ہجوم کی پر تشدد کارروائی سے چشم پوشی کرتے رہے۔

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے قریب ہی واقع شہر متھرا ایک اور ہندو دیوتا کرشن کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ سخت گیر ہندو یہاں بھی مغل دور کی ایک مسجد کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کرشن مندر کی جگہ تعمیر کی گئی ہے۔

اس تنازع سے متعلق بی جے پی کے رہنماؤں کے بیانات نے متھرا میں ایک بار پھر کشیدگی پیدا کر دی ہے۔گزشتہ برس وزیرِ اعلیٰ یوگی کے نائب کیشو پرساد نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایودھیا میں مندر کی تعمیر کے بعد اب متھرا کی باری ہے۔

’اے ایف پی‘ کے مطابق متھرا کے مسلمان بی جے پی کے دور میں ہونے والے امتیازی سلوک کی وجہ سے پہلے ہی برہم ہیں اور ساتھ ہی انہیں ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی ایک بار پھر کامیابی کا خدشہ ہے۔

متھرا کے ر محمد یامین کا ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یوپی میں بی جے پی کی حکومت نے نوجوان مسلمانوں پر غداری کے الزام عائد کرکے انہیں جیلوں میں ڈال دیا ہے۔ حکومت گوشت کی دکانوں اور ہوٹلوں میں گوشت کے استعمال پر پابندی لگا رہی ہے جس کی وجہ سے مسلمان بے روزگار ہو رہے ہیں۔

البتہ بی جے پی کی قیادت مذہبی بنیادوں پر تفریق کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی کئی مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں بھارت میں اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔

SEE ALSO: گاندھی کا قاتل بھارت میں کس کا ہیرو؟

انتخابی ایشوز کیا ہیں؟

بھارت میں گزشتہ برس کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی لہر میں اتر پردیش بھی شدید متاثر ہوا۔ وبا کے معاشی اثرات کی وجہ سے ریاست میں بے روزگاری بھی ایک گمبھیر مسئلہ بن چکی ہے۔

لیکن اس کے باوجود بی جی پی ایودھیا میں مندر کی تعمیر کا وعدہ پورا کرنے کا کریڈٹ لے کر ہندو آباد ی میں اپنی حمایت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔

یوگی آدتیہ ناتھ مسلمانوں کی مخالفت اور مذہبی منافرت کے الزامات اور اپنی حکومت کی کارکردگی پر ہونے والی تنقید کو مسترد کرتے ہیں۔

رائٹرز کے مطابق وزیرِ اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کا کہنا ہے کہ وہ وبا کے باعث پیدا ہونے والے معاشی مسائل اور بے روزگاری جیسے مسائل سے آگاہ ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ 18-2017 کے مقابلے میں اتر پردیش میں بے روزگاری کم ہوئی ہے۔

ان کہنا ہے کہ انہوں ںے اپنے دورِ حکومت میں جرائم پیشہ گروہ کے خاتمے کا ریکارڈ قائم کیا ہے اور اسی لیے رائے دہندگان کو ریاستی انتخابات میں انہیں ووٹ دینا چاہیے۔

وہ کرپشن اور جرائم کے خلاف اپنی حکومت کی کارکردگی کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں۔

سماج وادی پارٹی کے سربراہ اور یوپی کے سابق وزیرِاعلیٰ اکھلیش یادو کی انتخابی مہم میں بےروزگاری اور مہنگائی کو مرکزیت حاصل رہی ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت کے متعارف کردہ زرعی قوانین کے خلاف شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کے باعث یوپی میں اسے مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

کسانوں کی اس تحریک کے بعد وزیرِ اعظم مودی نے گزشتہ برس یہ قوانین واپس لینے کا اعلان کیا تھا۔ اس تحریک کی قیادت یوپی ہی سے تعلق رکھنے والے کسان رہنما راکیش ٹکیت کررہے تھے۔

سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو۔

ایک زرعی ریاست ہونے کی وجہ سے یوپی میں کسانوں کے ووٹ انتخابات میں فیصلہ کن اہمیت رکھتے ہیں۔ اسی لیے بی جے پی کی حکومت نے یوپی میں اپنی عوامی حمایت برقرار رکھنے کے لیے کسانوں کے خاندان میں ہر فرد کو نوکری اور مفت بجلی دینے کا اعلان کیا ہے۔

کون کون میدان میں ہے؟

کانگریس، بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی کی جماعت کل ہند مجلس اتحاد المسلمین(ایم ایم آئی ایم) کے علاوہ بعض دیگر چھوٹی جماعتیں بھی یوپی کے انتخابی میدان میں اتری ہیں۔البتہ اصل مقابلہ بی جے پی ، سماج وادی اور سیاسی جماعتوں کے اتحاد آر ایل ڈی کے درمیان ہے۔

’رائٹرز‘ کے مطابق بھارت میں ووٹرز کی تعداد اور سماجی پیچیدگیوں کی وجہ سے عوامی رائے کے جائزے زیادہ قابلِ اعتبار نہیں ہیں۔

تاہم اب تک سامنے آنے والے رائے عامہ کے جائزوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی اتر پردیش میں اپنی حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب رہے گی۔ اب تک کے رائے عامہ کے جائزوں میں نچلی ذاتوں اور مسلمانوں کے ایشوز کی نمائندگی کرنے والی سماج وادی(سوشلسٹ) پارٹی کو دوسرے نمبر پر دکھایا جا رہا ہے۔گزشتہ دنوں وزیرِ اعظم موودی نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں یوپی کے انتخابات میں اپنی جماعت بی کے پی کی کامیابی کی امید ظاہر کی ہے۔

اس تحریر کے لیے خبر رساں اداروں ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ سے معلومات لی گئی ہیں۔