مختلف شعبوں میں کامیاب اور ممتاز خواتین اپنی پیشہ ورانہ کامیابی کے عروج پر اپنے عہدے چھوڑ رہی ہیں۔ سکاٹ لینڈ کی سیاستدان اور سکاٹش نیشنل پارٹی کی سربراہ نکولا سٹرجن نے حال ہی میں اپنے منصب سے استعفی دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی زندگی کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’’اپنی ملازمت کے آغاز سے ہی میرا خیال تھا کہ فرائض منصبی کی ادائیگی کرتے ہوئے یقینی طور پر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اب صحیح وقت آ گیا ہے جب میں اپنی جگہ کسی دوسرے کو دے دوں ۔‘‘اس وقت ان کی پارٹی کو سکاٹ لینڈ کی آزادی کے لیے کام کرنے کا موقع ملا ہے لیکن سٹرجن فخریہ طور پر یہ کہتی ہیں کہ وہ اپنا زیادہ وقت اب اپنے خاندان کے ساتھ گزارنا چاہتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’’اس سے ہمیں اپنے مستقبل کو تعمیر کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘
نیوزی لینڈ کی چالیس ویں وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن نے جنوری میں اپنے منصب سے استعفی دے دیا۔ افراط زر کی بڑھتی شرح نے ان کی پارٹی کی مقبولیت کو نقصان پہنچایا ہے۔ تاہم آرڈن نے ایک ماں کے فرائض کا حوالہ دیتے ہوئے اسے منصب چھوڑنے کی کلیدی وجہ قرار دیا۔ وہ خود بتاتی ہیں کہ ’’میں جانتی ہوں کہ اس منصب کے تقاضے کیا ہیں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ خود مجھ میں اپنے عہدے سے انصاف کرنے کی ہمت نہیں تھی۔‘‘
امریکی ایوان نمائندگان کی رکن سیاست دان نینسی پلوسی نے نومبر میں سپیکر کا منصب چھوڑ دیا تھا۔ افریقہ میں ایتھوپیا کی سپریم کورٹ کی سربراہ مئیزہ اشنافی جنوری میں مستعفی ہو گئی تھیں ۔
خواتین لیڈروں کے لیے اپنے اہم عہدوں یعنی اپنی پیشہ ورانہ کامیابیوں سے دست بردار ہونا کس چیز کی نشاندہی کرتا ہے؟
رنجیتا ڈی سلواڈی ایلوس جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے خواتین،امن اور سیکیورٹی کے ادارے میں کام کرتی ہیں ۔ ان کا خصوصی شعبہ خواتین کے خلاف امتیاز ی رویوں کا جائزہ لیتا ہے ۔ خواتین لیڈروں کی اپنی ذمے داریوں سے الگ ہونے کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ’’میرے خیال میں خواتین کے بڑے عہدوں سے الگ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ماحول ان کے لیے سازگار نہیں ۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہمارے لیے یہ بات اہم ہے کہ ہم اس نظام اور ڈھانچے کا جائزہ لیں جسے تاریخی طور پر مردوں نے تشکیل کیا ہے اور یہ نظام اور ڈھانچہ اب پائیدار نہیں رہا۔‘‘
اسی دوران لین اِن ڈاٹ آرگ(LeanIn.Org) اور میک کنسے اینڈ کمپنی (McKinsey & Company) کی ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ کاروباری شعبوں سے وابستہ خواتین بہتر معاوضے اور کام میں لچک چاہتی ہیں اور یہ حاصل کرنے کے لیے اپنی ملازمتیں تبدیل کر سکتی ہیں ۔ زیادہ امکان یہ بھی ہے کہ وہ گھر میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیں اور شاید اس کی وجہ گھر والوں کی دیکھ بھال کرنا ہو۔
رنجیتا ڈی سلواڈی ایلوس کہتی ہیں کہ ’’میرے خیال میں قیادت میں نگران یعنی دیکھ بھال کرنے والے کا کردار زیادہ قابل قبول ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
SEE ALSO: امریکہ اور پاکستان کے تجارتی وفود کا اجلاس، معاشی ترقی میں خواتین کا کردار بڑھانے پر زوربعض جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سخت مزاج اورپوری قوت سے اپنی بات منوانے والی خاتون لیڈر کو دوسری خواتین میں زیادہ پسند نہیں کیا جاتا ۔ ملاوی کی سابق صدر جوائس بینڈا نے روزنامہ گارڈین کو بتایا کہ ان کی سب سے بڑی ناقد خواتین ہوا کرتی تھیں۔
قائدانہ کردار ادا کرنے والی خواتین کے لیے ہر صورت حال خراب نہیں ہوتی۔ماہرین کہتے ہیں کہ یورپ میں جزوی طور پر کام کرنے کا رجحان خواتین کے لیے معاون ثابت ہو گا اور کاروباری شعبوں میں بھی خواتین کی نمائندگی کے لیے کوٹا مقرر ہو سکے گا۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اب بیشتر معاشرے خواتین قائدین کی موجودگی سے مانوس ہو رہے ہیں ۔ایلس ایوانز ۔۔۔۔۔امریکہ کی ہارورڈ اور ییل یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتی ہیں اور خواتین لیڈروں کا مطالعہ اور مشاہدہ ان کا خصوصی شعبہ بھی ہے ۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ’’ایسے معاشرے جہاں خواتین قیادت طویل عرصے سے موجود ہے جیسے کہ سکینڈے نیویا کے ممالک، تو وہاں خواتین لیڈروں کی بھر پور حمایت کی جاتی ہے اور دراصل وہاں پر قائدانہ کرداروں میں خواتین کی تعداد تقریبا نصف ہے۔‘‘
امریکی ایوان نمائندگان کی سابق سپیکر نینسی پلوسی نے اپنے منصب سے سبکدوشی پر یہ کہا تھا کہ35 برس قبل جب وہ سیاسی میدان میں اتری تھیں، اس کے مقابلے میں اب امریکی ایوان نمائندگان میں خواتین کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
(وی او اے )