|
ویب ڈیسک _ سفارتی خط و کتابت اور دیگر حساس معلومات افشا کرنے والی ویب سائٹ ’وکی لیکس‘ کے بانی جولین اسانج کا کہنا ہے کہ اُنہیں برسوں قید میں رکھنے کے بعد صحافت کا 'اعتراف جرم' کرنے پر رہائی ملی۔
جون میں رہائی کے بعد عوامی سطح پر اپنے پہلے خطاب میں جولین اسانج کا کہنا تھا کہ "آج میں اس لیے آزاد نہیں ہوں کہ سسٹم نے مجھے آزادی دی بلکہ میں نے صحافت کرنے کے جرم کو قبول کیا جس کے بعد مجھے رہائی ملی۔"
ان خیالات کا اظہار جولین اسانج نے منگل کو فرانس کے شہر اسٹراسبرگ میں 'کونسل آف یورپ رائٹس باڈی' کے ہیڈکوارٹر میں خطاب کے دوران کیا۔
باون سالہ جولین اسانج اس وقت عالمی توجہ کا مرکز بنے تھے جب سن 2010 اور 2011 میں اُن کے اشاعتی ادارے 'وکی لیکس' نے امریکی سفارتی کیبلز سمیت کئی خفیہ دستاویزات شائع کی تھیں۔
وکی لیکس کی اشاعت میں امریکہ کی افغانستان اور عراق میں جنگ، عالمی رہنماؤں سے متعلق محکمۂ خارجہ کی خط و کتابت سمیت دیگر دستاویزات شامل تھیں۔ ان دستاویزات نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا تھا۔
امریکی محکمۂ انصاف کا ان کے خلاف خفیہ معلومات شائع کرنے کے مجرمانہ الزامات کا مقدمہ بین الاقوامی سطح پر کئی برس سے توجہ کا مرکز تھا۔
گزشتہ 14 برس کے دوران جولین اسانج گرفتاری سے بچنے کے لیے کئی برس تک لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں چھپے رہے۔ بعدازاں وہ پانچ برس تک برطانیہ کی جیل میں رہے۔
رواں برس جون میں بحرالکاہل میں واقع امریکہ کے ناردرن ماریانا آئی لینڈز کی ایک وفاقی عدالت میں اعترافِ جرم کے بعد جج نے انہیں پانچ سال کی سزا سنائی جو وہ پہلے ہی برطانوی جیل میں کاٹ چکے تھے۔
محکمۂ انصاف کے ساتھ معاہدے کے تحت جولین اسانج کو ایک ہی مجرمانہ الزام کا اعتراف کرنا تھا کہ، انہوں نے خفیہ معلومات کو حاصل کر کے شائع کیا۔
ناردرن ماریانا آئی لینڈز اسانج کے آبائی ملک آسٹریلیا کے نسبتاً قریب ہے۔
'صحافت کوئی جرم نہیں ہے'
جولین اسانج کا مزید کہنا تھا کہ "میرے لیے انصاف اب روک دیا گیا، اسی لیے میں نے آزادی کا انتخاب کیا۔ صحافت کوئی جرم نہیں ہے بلکہ یہ ایک آزاد معاشرے کا اہم ستون ہے۔"
اُن کا کہنا تھا کہ معاملہ بہت سادہ ہے کہ صحافیوں کو اُن کے کام کی وجہ سے نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔
جولین اسانج کے بقول بدقسمتی سے گزشتہ 14 برس کے دوران صحافیوں کے لیے حالات مزید خراب ہوئے ہیں اور سچ بولنا اب مزید مشکل ہو گیا ہے۔
جولین اسانج کے معاملے پر مختلف آرا سامنے آتی رہی ہیں۔
اُن کے حامی اُنہیں آزاد صحافت کا علمبردار قرار دیتے ہوئے اُنہیں جیل میں رکھنے کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم اُن کے مخالفین اُنہیں ایک لاپرواہ بلاگر کے طور پر دیکھتے ہیں جن کی انتہائی حساس دستاویزات کی بغیر سنسر اشاعت نے اُن کے بقول کئی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا۔
امریکی صدر جو بائیڈن ماضی میں جولین اسانج کو 'دہشت گرد' قرار دے چکے ہیں اور وہ آئندہ برس جنوری میں عہدہ چھوڑنے سے قبل اسانج کے لیے صدارتی معافی کا حکم نامہ جاری کریں گے۔
اسانج اب بھی جاسوسی ایکٹ کے تحت اپنی سزا کے لیے امریکی صدارتی معافی کے لیے کوشاں ہیں۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔