گذشتہ ایک ماہ سے وکی لیکس پر شائع شدہ معلومات دنیا بھر میں شدو مد سے زیر ِ بحث ہیں۔ جہاں ان معلومات کے باعث امریکی حکومت نالاں دکھائی دی وہیں ماہرین اس بات کو بھی موضوع ِ گفتگو بنا رہے ہیں کہ امریکی میڈیا نے وکی لیکس کے حوالے سے کیا کردار دکھایا۔ کیا ان کی رپورٹنگ غیر جانبدار رہی یا وہ امریکی موقف پیش کرتے دکھائی دئیے۔
امریکہ میں ایک حلقہ امریکی ذرائع ابلاغ کی رپورٹنگ کو جانبدار اور امریکی حکومت کی حمایت کرتا بیان کرتا ہے۔
وکی لیکس کی جانب سے خفیہ مراسلوں کی اشاعت کو ایک ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجودان انکشافات کی گرد ابھی بیٹھی نہیں۔ امریکی سیاست میں دائیں بازو کی جماعت Libertarian Party کے صدر مارک ہنکل وکی لیکس کی اشاعت کو حق ِآزادی ِ رائے قرار دیتے ہیں۔
جہاں تک وکی لیکس کا معاملہ ہے تو یہ انسانیت اور حق ِ آزادی ِ رائے کے لیے بڑی کامیابی ہے۔جبکہ بعض ماہرین ان مراسلات کی اشاعت کو امریکی حکومت کے لیے ایک ایسا امتحان قرار دے رہے ہیں جس کے نتائج امریکی خارجہ پالیسی کودیر تک برداشت کرنا ہوں گے۔
واشنگٹن میں بنگلہ دیش نیوز24ڈاٹ کام کے سینئیر ایڈیٹر ارشد محمود کے مطابق وکی لیکس کی اشاعت سے امریکہ کے دیگر ممالک کے ساتھ روابط میں فرق پڑ سکتا ہے۔
‘‘یقیناً۔ بہت سے ممالک کو اس سے اندازہ ہوا ہے کہ انکے بارے میں امریکی حکومت کس طرح سوچتی تھی۔ جیسا کہ روسی وزیر ِ اعظم پوٹن، چینی لیڈراور فرانس کے صدر سرکوزی کے بارے میں شائع شدہ معلومات سے ۔ تو اس کا اثر تو بہر حال پڑے گا ۔’’
امریکی سیاسی جماعت گرین پارٹی کی نمائیندہ سیتھیا مکینی کے نزدیک امریکی میڈیا نے وکی لیکس کو اس طرح سے cover نہیں کیا جیسا کرنا چاہیئے تھا۔
امریکی حکومت مستقبل میں وکی لیکس جیسے واقعات سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات اٹھانے پر غور کر رہی ہے۔ مگر ماہرین کے نزدیک اس بات کا تعین بھی ضروری ہے کہ اکیسویں صدی میں امریکہ جیسے ملک میں اس قسم کی خبروں کی رپورٹنگ کیسے کی جائے ۔