وکی لیکس نے اپنی ویب سائٹس پر امریکی خفیہ دستاویزات کا اجراکر دیا ہے اور ساتھ ہی لاکھوں امریکی سفارتی ای میلز اور خطوط دنیا کے کئی اہم اخبارات کو بھی مہیا کئے ہیں جن میں نیویارک ٹائمز اور برطانوی اخبار گارڈین بھی شامل ہیں۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ اور بہت سے انکشافات کے علاوہ سفارتی دستاویزات سے ایک انکشاف یہ ہو تا ہے کہ امریکہ سن 2007سے پاکستان کے ایک رسرچ ری ایکٹر سےانتہائی افزودہ یورینیم اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کر رہا ہے جو کہ امریکی حکام کا خیال ہے ایک ناجائز ایٹمی ہتھیار بنانے ٕمیں کام آسکتا ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ کوششیں ناکام رہی ہیں۔
برطانوی اخبار دی گارڈین ان دستاویزات کے حوالے سے انکشاف کرتا ہے کہ عرب رہنما امریکہ سے اصرار کرتے رہے ہیں کہ وہ ایران پر حملہ کرے۔
ایک اور دستاویز سے انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ سال افغانستان کے نائب صدر احمد ضیا متحدہ عرب امارات کے دورے پر گئے تو منشیات کی روک تھام کے لئے کام کرنے والے امریکی ادارے DEA کے ساتھ کام کرنے والے مقامی افسران کو معلوم ہوا کہ ان کے پاس 50کروڑ سے زائد ڈالر کی رقم بھی تھی۔ کابل میں امریکی سفارتخانے سے بھیجے گئے ایک پیغام میں بتایا گیا کہ نائب صدر سے رقم نہیں لی گئی اور نہ ہی یہ معلوم کیا گیا کہاں سے آئی اورکہاں گئی۔ احمد ضیا نے اس الزام کو رد کیا ہے۔
دونوں اخبارات نے سفارتی دستاویزات کے حوالے سے رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکی حساس اداروں کا خیال ہے کہ ایران شمالی کوریا سے جدید مزائل حاصل کر چکا ہے۔ روسی ساخت کے یہ مزائل تین ہزار دو سو کلو میٹر تک مار کرسکتے ہیں اور مشرق وسطیٰ اور یورپ کے کچھ ممالک کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ مزائل جوہری ہتھیار وں کو لے جانےکے لئے بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ اس سے پہلے صرف یہ معلوم تھا کہ ایران کے پاس ایسے مزائل ہیں جو ڈھائی ہزار کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں۔
ان دستاویزات سے یہ بھی انکشاف ہوتا ہے کہ امریکہ نے شمالی کوریا سے ایران جانے والے مزائل تیار کرنے کے لئے پرزوں کی ایک کھیپ کو روکنے کے لئے چین سے مدد طلب کی تھی ۔ یہ واضح نہیں کہ چین اس بارے میں کوئی مدد کر سکا یا نہیں۔
دی نیویارک ٹائمز او ر دی گارڈین نے ایک اور سفارتی دستاویز کے حوالے سے لکھا ہے کہ امریکہ اور یمن اس بات پر متفق تھے کہ امریکہ یمن میں القاعدہ کے ٹھکانوں پر جو مزائل مارے گا یمن انہیں اپنے ذمے لے گا ۔ اس بارے میں یمن کے صدر علی عبداللہ صالح نے جنوری میں امریکی جنرل ڈیوڈ پٹرئس سے کہا ‘ہم انہیں اپنے بم کہتے رہیں گے۔ آپ کے نہیں۔’
اتوار کو وکی لیکس کے اجرا سے قبل وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں دستاویزات کی اشاعت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے نہ صرف انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں بلکہ ان لوگوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو گا جن کے نام ان دستاویزات سے ظاہر ہونگے۔
امریکی وزارت خارجہ کے قانونی مشیر ہیرلڈ کوہ نے ایک خط میں وکی لیکس کے سربراہ جولین اسانش اور ان کے وکیل کو خبر دار کیا تھا کہ خفیہ امریکی دستاویزات کی اشاعت امریکی قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔
ستائیس نومبر کو لکے گئے خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خفیہ دستاویزات کی افشا ہونے سے امریکی فوجیوں ، صحافیوں اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے کارکنوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اس طرح کے اقدام سے امریکہ کے کئی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ آسکتا ہے خاص طور وہ ممالک جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کے ساتھی ہیں اور جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے میں تعاون کر رہے ہیں۔
گزشتہ چند روز میں وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن سمیت کئی امریکی حکام نے دوسرے ممالک کے ساتھ روابط کر کے وکی لیکس کے انکشافات سے متعلق بات چیت کی ہے۔ وزارت خارجہ کے ایک ترجمان کے مطابق جن ملکوں کے رہنماؤں سے رابطے کیے گئے ہیں ان میں سعودی عرب، جرمنی، عرب امارات ، برطانیہ، فرانس اور افغانستان شامل ہیں۔
وکی لیکس نے ٹوٹر پر کہا تھا کہ وہ تقریباً 30لاکھ خفیہ دستاویزات شائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔