پاکستان کو آئندہ پندرہ ماہ کے دوران ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے 26 نکاتی پروگرام پر عمل کرنا ہے جس میں دہشت گرد گروپوں یا دوسرے دہشت گرد افراد کے مالی وسائل و ذرائع کو منقطع کرنا شامل ہے۔ لیکن جب ایسے افراد کے بنک اکاوئنٹ جو منجمد تھے کھول دئے جائیں جنکے نام شیڈول فور میں شامل تھے یا ایسے لوگوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی جائے تو پاکستان پندرہ ماہ کے بعد کس طرح ایف اے ٹی ایف میں اپنے موقف کا دفاع کرے گا۔
خیال رہے کہ شیڈول فور میں ان افراد کے نام شامل کئے جاتے ہیں جو مبینہ طور پر انتہا پسندی، شدت پسندی یا دیگر ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوں تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے آسانی سے ایسے افراد کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکیں۔
اس بارے میں ہمارے ساتھی قمر عباس جعفری نے سیکیورٹی کے ماہر ریٹائرڈ بریگیڈئر عمران ملک، ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسین اور واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر مارون وائن بام سے گفتگو کی ہے۔
عمران ملک کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو قومی دھارے میں لاکر ان کی سوچ کو تبدیل کیا جائے۔ آئرش رپبلیکن آرمی اور افغان طالبان سے مذاکرات کی کوششیں اس بات کی مثالیں ہیں۔ اس لئے پاکستان میں بھی اگر یہ کوشش کی جارہی ہے تو اس میں کیا قباحت ہے۔
ڈاکٹر اشفاق حسین کا کہنا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جو کچھ کیا وہ ساری دنیا پر عیاں ہے اور ایف اے ٹی ایف کا پاکستان کے حوالے سے فیصلہ ایک سیاسی فیصلہ ہے۔
ڈاکٹر وائن بام کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ جن گروپوں کو عالمی اداروں نے دہشت گرد قرار دیا ہے ان کے ساتھ کوئی نرمی نہیں ہونی چاہئے اور اگر ایسا ہوا تو پاکستان کیلئے مشکلات تو ہوں گی۔
قمر عباس جعفری کی ان ماہرین سے گفتگو کی ریکارڈنگ سننے کیلئے اس لنک پر کلک کریں:
Your browser doesn’t support HTML5