کھلاڑی اپنی جنس سے نہیں بلکہ کھیل سے پہچانا جاتا ہے۔ تو پھر ایسا کیوں ہے کہ گولف، ٹینس اور فگر اسکیٹنگ جیسے کھیلوں میں مرد اور خواتین کو مختلف کاسٹیومز پہنے ہوتے ہیں؟
بیجنگ میں سرمائی اولمپکس جاری ہیں۔
منگل کے روز خواتین کے مختصر پروگرام فگر اسکیٹنگ' کے مقابلے میں 26 سالہ سویڈش ایتھلیٹ جوزفینا تالجگارڈ کندھوں سے لیکر ٹخنوں تک سیاہ رنگ کے چست جمپ سوٹ میں ملبوس آئس رنک میں اتریں۔ بالوں کا اونچا جوڑا، آنکھوں کے اسموکی میک اپ اور لباس پر خوبصورتی سے لگے چمکتے ستاروں کے ساتھ وہ خود کسی فلمی ستارے سے کم نہیں لگ رہی تھیں۔
مگر مقابلے میں شریک تیس خواتین کھلاڑیوں میں جوزفینا وہ واحد ایتھلیٹ تھیں جنہوں نے پتلون پہنی تھی باقی تمام کھلاڑی فگر اسکیٹنگ سے جڑے روایتی کاسٹیوم میں ملبوس تھیں۔ اس کاسٹیوم کا اوپری حصہ لیوٹارڈ کہلاتا ہے جب کہ نچلا حصہ مختصر اسکرٹ جسے ٹو ٹو کہا جاتا ہے اور اسٹاکنز پر مشتمل ہوتا ہے۔
SEE ALSO: جاہ و جلال کی سیاست، دواولمپکس اور چین کی عظیم بننے کی چاہتاگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ جوزفینا تالجگارڈ نے اولمپکس قانون کی خلاف ورزی کی تو ایسا بھی نہیں ہے۔ 2006 کے بعد سے اولمپکس قوانین میں نرمی کی گئی جس کے تحت خواتین ایتھلیٹس فگر اسکیٹنگ پرفارمنس کے دوران پتلون یا ایک سنگل پیس کاسٹیوم جسے یونیٹارڈ کہا جاتا ہے، پہننے کی مجاز ہیں۔
خواتین ایتھلیٹس مختصر لباس کیوں پہنتی ہیں؟
فگر اسکیٹنگ کے پریکٹس سیشن کے دوران یہی خواتین ایتھلیٹس نہ صرف مکمل لباس زیب تن کیے ہوئے ہوتی ہیں بلکہ اولمپکس کے آغاز میں ڈانس شو کے موقعے پر بھی ایک چوتھائی سے زیادہ ایتھلیٹس نے پتلونیں پہنی ہوئی تھیں۔
جب کوئی پابندی بھی نہیں اور بظاہر یہ ایتھلیٹس خود بھی پتلونوں میں آرام دہ محسوس کرتی ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ مقابلوں میں یہ خواتین مختصر لباس میں کیوں نظر آتی ہیں؟
امریکہ کی پرڈیو یونیورسٹی کی پروفیسر اور مصنفہ شیریل کوکی جینڈر اور اسپورٹس کے موضوع پر گہری نگاہ رکھتی ہیں۔
اس موضوع پر خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے شیریل کوکی کہتی ہیں کہ قوانین تبدیل کر دینے سے ثقافت تبدیل نہیں ہو جاتی اور اس سے پھرنا کھلاڑیوں کو مہنگا پڑ سکتا ہے۔
پروفیسر کوکی کے مطابق فگر اسکیٹنگ کی دنیا میں خواتین ایتھلیٹس کا تصور ہمیشہ سے ایک سجی سجائی رقص کرتی گڑیا سے جڑا ہے۔ اور جب آپ کو پوائنٹس دینے والے ججز بھی اسی سوچ کے حامل ہوں اور آپ خود میڈل جیتنے کے خواہشمند تو آپ روایت کو توڑنے میں ہمیشہ ہچکچائیں گے۔
یہ درست ہے کہ فگر اسکیٹنگ میں خواتین کھلاڑیوں کا تصور خوبصورت نگینوں سے خیرہ سوئمنگ کاسٹیوم کی طرز پر بنے لباس اور مختصر اسکرٹ میں کلاسیکل موسیقی پر رقص کرتی کسی بیلیرینا سے ہی جڑا ہے اور کاسٹیوم کے انتخاب میں آزادی کے باوجود خواتین ایتھلیٹس سال در سال اسی توقع کو نافذ کرتی چلی آرہی ہیں اور اسے توڑتے ہوئے کتراتی ہیں۔
تاہم 30 ایتھلیٹس میں ایک ہی سہی، جوزفینا تالجگارڈ نے اس روایت کو توڑا ہے۔ اپنے کاسٹیوم کے انتخاب کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ میں اس طرح کے کاسٹیوم میں خود کو بہت طاقتور بھی محسوس کرتی ہوں اور پراعتماد بھی۔
دیگر ایتھلیٹس کا بھی یہی کہنا ہے کہ فگر اسکیٹنگ میں تیز حرکات اور گھومنے کے دوران پتلون پہننا اسکرٹ کا وزن سنبھالنے سے بہت آسان ہے مگر وہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس مخصوص اسکرٹ کو پہننے کو ہی ترجیح دیتی ہیں کیونکہ انہیں خوف ہے کہ اگر ججز کو ان کا لباس پسند نہیں آیا تو ان کے پوائنٹس کٹ سکتے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جوزفینا تالجگارڈ نے تبدیلی کے اس پرسکون تالاب میں پہلا پتھر پھینک دیا ہے اور ان کے اس دلیرانہ فیصلے کے بعد بہت ممکن ہے کہ آنے والے سالوں میں دیگر ایتھلیٹس بھی ان کے نقش قدم پر چلتی نظر آئیں۔
یاد رہے گزشتہ سال یورپین ہینڈ بال ٹورنامنٹ میں کاسٹیوم قوانین کی خلاف ورزی کرکے بکنی کاسٹیوم کی بجائے شارٹس میں میدان میں اترنے والی ناروے کی خواتین کی ٹیم پر 1500 یورو کا جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔
ناروے کی ہینڈبال ٹیم نے یہ قانون توڑ کر ٹورنامنٹ انتظامیہ کو تو ناراض کیا مگر اسپورٹس میں مردوں کے غلبے والے نظام کو للکارنے کے ان کے اس بہادرانہ فیصلے کو دنیا بھر میں سراہا گیا۔
(اس خبر کا کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)