پاکستان کی سپریم کورٹ نے توہین مذہب کے الزام میں ساڑھے تین سال سے قید ایک خاتون کی ضمانت منظور کر لی ہے۔ ولیہا عرفات 2012 سے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے الزام میں قید ہیں۔
جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں ایک تین رکنی بینچ نے جمعرات کو ان کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے 25,000 روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے پر ملزمہ کو فوراً رہا کرنے کا حکم دیا۔
ولیہا عرفات کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے عدالت کو بتایا کہ مقدمے کا حتمی فیصلہ ہونے تک ملزمہ کو ضمانت دی جا سکتی ہے۔
ان کا مؤقف تھا کہ ملزمہ مسلمان ہے اور قرآن کی بے حرمتی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی لہٰذا اسے رہا کیا جائے۔
پاکستان میں توہین مذہب ایک حساس معاملہ ہے اور عموماً عدالتوں پر دباؤ ہوتا ہے کہ شواہد سے قطع نظر ایسے مقدمات میں قید افراد کو رہا نہ کیا جائے۔
اس سے قبل ایڈیشنل سیشن جج نے ولیہا عرفات کی ضمانت کی تین درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے بھی ان کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کر دیا جس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جو منظور کر لی گئی۔
ولیہا عرفات کی ضمانت پر معروف وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اگرچہ توہین مذہب کے قانون میں کسی کی ضمانت پر رہائی اچھا فیصلہ ہے لیکن اُن کے بقول اس حساس معاملے کے بارے میں اب بھی ماحول کچھ زیادہ نہیں بدلا۔
’’ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ماحول بدل گیا ہے۔ ہر کیس کے اپنے حقائق ہوتے ہیں اور انہی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ضمانت ہوئی ہے۔ ہمیں اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیئے کہ اس سے ملک کا ماحول بدل رہا ہے۔‘‘
ماضی میں ایسے بہت سے واقعات ہو چکے ہیں جب مشتعل افراد نے کسی تحقیق کے بغیر محض توہین مذہب کے شبہے پر کسی کو قتل کر دیا ہو۔
گزشتہ سال ضلع قصور میں مشتعل ہجوم نے ایک مسیحی جوڑے کو توہین مذہب کے شبہے میں تشدد کا نشانہ بنایا اور بعد میں زندہ جلا دیا تھا۔
گزشتہ سال ہی توہین مذہب کے الزام میں قید پاکستانی نژاد برطانوی شہری کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ایک محافظ نے چھری سے وار کر کے شدید زخمی کر دیا تھا۔
پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو 2011 میں توہین مذہب کے قوانین پر تنقید کرنے پر ان کے محافظ ممتاز قادری نے قتل کر دیا تھا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے ممتاز قادری کو فوجداری اور انسداد دہشتگردی کے قوانین کے تحت دو مرتبہ موت اور جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔ بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
مگر بعض گروہوں کی جانب سے ممتاز قادری کی مسلسل حمایت اور مظاہروں کے باوجود سپریم کورٹ نے ناصرف ممتاز قادری کی فوجداری مقدمات کے تحت دی گئی سزا برقرار رکھی بلکہ انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت دی گئی سزائے موت کو بھی بحال کر دیا۔
مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال پر تنقید توہین مذہب نہیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر لوگ توہین مذہب کے مرتکب افراد کو خود ہی سزائیں دینا شروع کر دیں تو اس سے ملک میں انتشار پھیلے گا۔
پاکستان میں معتدل حلقوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایک خوش آئند اقدام قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس سے انتہا پسندانہ سوچ کی حوصلہ شکنی میں مدد ملے گی۔