دنیا کے مختلف حصوں میں تبدیلی کی لہر برپا کرنے میں میڈیا کا کتنا ہاتھ ہے ؟ اس کا درست تخمینہ لگانے کے لئے ان دنوں دنیا کے کئی اداروں میں ہر پہلو سے تحقیق ہو رہی ہے لیکن عالمی سطح پر میڈیاکے اندرآنے والی تبدیلیوں میں خواتین کا کتنا حصہ ہے ؟ یہ پہلو بھی ان دنوں تعلیمی اداروں کی تحقیق کا موضوع بنا ہوا ہے ۔ایک امریکی تنظیم انٹر نیشنل ویمنزمیڈیا فاؤنڈیشن اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی ایک مشترکہ تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں کے ذرائع ابلاغ میں خواتین کو اپنے کام اور ترقی کے راستے میں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مارچ کا مہینہ دنیا کے کئی ملکوں میں خواتین کے مہینے کے طور پر منایا جا تا ہے ، مگرواشنگٹن میں اس مہینے کے آخر میں دنیا کے اسی ممالک کی خواتین میڈیا لیڈرز ذرائع ابلاغ کے نظام میں خواتین کے حصے اور ان کے مسائل پر بات کرنے کے لئے جمع ہوئیں ۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں منعقد ہ اس تین روزہ اجتماع میں انٹر نیشنل ویمنزمیڈیا فاؤنڈیشن نے نیوز میڈیا میں خواتین کی صورتحال پراپنی تحقیقی رپورٹ بھی پیش کی۔
آئی ایم ڈبلیو ایف (انٹرنیشنل ویمنزمیڈیا فاونڈیشن )نے اسے اپنے انداز کی پہلی عالمی سطح کی رپورٹ قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ اس رپورٹ میں نیوزمیڈیا میں خواتین کے کردار اور ا ن کے مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔
آج امریکہ کے مقامی ٹیلیویژن چینلز کی زیادہ تر میزبان خواتین ہیں ۔اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کے نیوز روم بھی خواتین سے پر نظر آتے ہیں ، لیکن امریکی ادارے پبلک براڈکاسٹنگ سروس (پی بی ایس ) کی جوڈی ووڈرف کہتی ہیں کہ امریکہ میں خواتین صحافیوں کو ابھی لمبا سفر طے کرنا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ابھی مینجمنٹ اور لیڈر شپ کی سطح پر زیادہ خواتین نہیں ہیں۔ایک وجہ تو کچھ حد تک امتیازی رویے ہیں ،کیونکہ لوگ اب بھی خواتین کی موجودگی میں زیادہ آسانی محسوس نہیں کرتے اور دوسری وجہ کچھ گہری ہے ۔ خواتین عام طور پر اہم پوزیشنز کے لئے اپنی صلاحیت کے دعوے میں ہچکچاتی ہیں ۔ان میں ایسا اعتماد پیدا کرنے کے لئے ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے خاندان کی ذمہ داریوں کے ساتھ کام کے تقاضے بھی پورے کر سکتی ہیں ۔ جبکہ مردوں کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ۔
لیکن کیا امریکہ سے لے کر مشرقی یورپ اور بر اعظم افریقہ سے لے کر جنوبی ایشیا تک خواتین صحافیوں کے مسائل اور ترقی کے راستے کی مشکلات کی نوعیت ایک سی ہے ؟
بی بی سی ورلڈ نیوز کی کیٹی کے کہتی ہیں کہ
خواتین صحافیوں کی ترقی کی صورتحال پر ریسرچ مرتب کرنے والی خاتون کا کہنا ہے کہ کچھ کم ترقی یافتہ علاقوں میں صحافت کو پر کشش پیشہ نہیں سمجھا جاتا ۔ جو مجھے بہت دلچسپ لگا کیونکہ جن ملکوں میں عورتیں تعلیم یافتہ ہیں ، وہاں بھی وہ صحافت میں نہیں جانا چاہتیں ۔ تو ممکن ہے کہ کچھ ملکوں میں خواتین کی میڈیا میں صورتحال معاشرے میں ان کے مجموعی مقام سے کم اچھی ہو ۔ہمارے پاس مثالیں مختلف ہو سکتی ہیں ،لیکن ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھرکے میڈیا میں خواتین 25 فیصد کم کماتی ہیں ۔ اہم اداروں میں اعلی ٰ عہدوں پر خواتین کی کمی ہے ۔ مگر سب سے حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ خواتین کو ملازمت دینا کسی بھی میڈیا ادارے کے اپنے فائدے کی بات ہے۔
امریکہ سمیت مغربی ملکوں میں بھی صحافت کوئی آسان پیشہ نہیں سمجھا جاتا ، لیکن پاکستان ،افغانستان ، یمن اور بھارت کی خواتین صحافیوں کا کہنا ہے کہ انکے ملکوں کے حالات اور مسائل ترقی یافتہ مغربی ملکوں سے مختلف ہیں ۔ امن و امان کی صورتحال ، صحافتی ذمہ داریوں کے پیچیدہ اوقات کار اور ترقی کے راستے میں حائل امتیازی رویوں کے باوجود خواتین نے صحافت کے میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔
ریحانہ حکیم ، پاکستان کے ایک انگریزی جریدے نیوز لائن کی ایڈیٹر ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم جب یہاں آتے ہیں تو سمجھتے ہیں ہم بہت پیچھے ہیں ، لیکن ایسا نہیں ہے ۔ ہم بہت آگے آگئے ہیں۔ مگر ابھی ہمیں بہت آگے جانا ہے ۔ پاکستان میں مجھے جو چیز بہت حیران کرنے کے ساتھ امیددلاتی ہے ، وہ ہے خواتین کی وہ کھیپ جو الیکٹرانک میڈیا میں آئی ہے ۔ اور خواتین کا بحیثیت اینکر پرسنز ، نیوز کاسٹرز، ڈائریکٹرز،کرنٹ افئیرز وغیرہ میں کردار بہت نمایاں ہے ۔ جب ہم نے کام شروع کیا تھا تو انگلش جرنلزم میں کافی پروفیشنل خواتین تھیں مگر اردو جرنلزم میں ان کی تعداد بہت کم تھی۔
افغانستان کی ایک نیوز ایجنسی کی ایڈیٹر ان چیف فریدہ نیک زاد 2008ء میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا وومن آف کریج ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔ ان کا کہناہے کہ اگر ہم طالبان یا مجاہدین یا کمیونسٹ دور سے مقابلہ کریں تو افغانستان کی صحافت میں خواتین کا حصہ کم رہا ہے ۔ اس میں دلچسپی بھی کم تھی ۔ طالبان دور کے بعد صحافت آزاد ہوئی ، اور بین الاقوامی برادری اور تنظیموں کی مدد سے صحافت میں خواتین کا حصہ بھی بڑھنے لگا۔ اگرچہ ان کی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت عالمی معیار کی نہیں ہے لیکن انہوں نے شارٹ ٹرم کورسز اور ٹریننگ ورکشاپس کے ذریعے صحافت میں آنا شروع کیا ۔ اور ان کی تعداد میں طالبان دور کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے ۔ مجھے امید ہے کہ مزید ترقی ہوگی ، مگر ملک کے مجموعی حالات کی وجہ سے شاید خواتین صحافی ان علاقوں میں کام نہ کر سکیں ، جو زیادہ محفوظ نہیں ہیں ۔ اور صورتحال میں صرف خواتین صحافیوں کے لئے نہیں ، ہر صحافی کے لئے مشکلات موجود ہیں۔
ٹائمز آف انڈیاکی باچی کر کریا کہتی ہیں کہ بھارت میں خواتین پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اپنا لوہا منوا چکی ہیں مگر اب تک کسی میڈیا گروپ کی ایگزیکٹو پوزیشن پر نہیں پہنچ سکیں ۔ ان کا کہناہے کہ پرنٹ جرنلزم میں ٹاپ ایڈیٹرشپ پر کوئی خاتون نہیں ہے ، 90 کی دہائی میں بھارت میں کئی خواتین اپنے کیرئیر کے ٹاپ پر پہنچ گئی تھیں مگر اس کے بعد انہوں نے اپنی تحریر کے ذریعے تبدیلی لانے کو زیادہ ترجیح دی۔ ہمارے پاس پلیٹ فارمز کی کمی نہیں ہے اپنے آپ کو منوانے کے لئے ہم نے صورتحال سے سمجھوتہ کیا جس پر ہم بہت مطمئن ہیں ۔
یمن سے تعلق رکھنے والی نادیہ السکف یمن ٹائمز کی چیف ایڈیٹر ہیں ۔ ان کا کہناہے کہ یمن میں خواتین کی صورتحال بہت حوصلہ افزا ہے ۔ صحافت میں خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔ ہم نے کئی پرانے تصورات کو توڑا ہے ۔ لوگ سمجھتے تھے کہ عورتو ں کو استادیا ڈاکٹرہی ہونا چاہئے ۔ اب عورتیں پائلٹ بھی ہیں ۔صورتحال بہتر ہو رہی ہے مگر ابھی ہم تعداد بڑھانے پر کام کر رہے ہیں ، اس کے بعد معیار بڑھانے پر کام کریں گے ۔
یمن میں میڈیا کی تعلیم کا ایک ہی کالج ہے ۔ وہاں جو لڑکیاں صحافت میں آتی ہیں وہ لڑکوں کی نسبت بہتر کام کرتی ہیں کیونکہ ان کے لئے صحافی بننے کی خواہش کرنا بھی ایک بڑا قدم ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک مشکل کام ہے ۔
ماریہ ایلینا سالیناس امریکہ میں ہسپانوی زبان کی مقبول ٹیلیویژن میزبان ہیں ۔ان کا کہناہے کہ میں ایک ایسے ادارے میں کام کرتی ہوں ، جس میں بہت سی خواتین خبروں کے شعبے سے منسلک ہیں ۔ انہیں خاتون ہونے کی وجہ سے بعض اوقات زیادہ کام کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن ہمارے ادارے میں ٕ خواتین کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہیں ۔ مگر مسائل بھی ہیں ۔
انیس پول جرمنی کے ایک اخبار کی مینجنگ ایڈیٹر ہیں ۔ ان کا کہناتھا کہ میرے اخبار کی پالیسی ہے کہ فرنٹ پیج پر ہر روز ایک خاتون کی تصویر چھاپی جائے۔ لیکن اس کے لیے آپ کو صرف تصویر ہی نہیں ڈھونڈنی ہوتی ، بلکہ اس سے منسلک ہر روز کوئی سٹوری بھی چھاپنی ہوتی ہے ۔ یہ اخبار میں خواتین سے متعلق موضوعات کو زیادہ سے زیادہ جگہ دینے کا ایک طریقہ ہے۔
کانفرنس کے اختتامی سیشن میں ہر خطے سے تعلق رکھنے والی خواتین میڈیا لیڈرز نے اپنے اپنے خطے کے لئے مستقبل کے اہداف طے کئے ۔ جن میں
ایشیا ئی ملکوں میں ایک جینڈر پالیسی بنا کر خواتین صحافیوں کا علاقائی اتحاد قائم کرنا ،
لاطینی امریکی ملکوں میں خواتین صحافیوں کی مینیجمنٹ ٹریننگ کا بندو بست کرنا ،
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں خواتین کے میڈیا اداروں میں کام کے مالی منافع پر تحقیق کرنا ،
یورپی ملکوں میں خواتین صحافیوں کا فیس بک گروپ بنا نا اور اخبارات و جرائد میں خواتین سے متعلق موضوعات کو زیادہ نمائندگی دلوانے کی کوشش کرنے اور امریکہ اور کینیڈا میں اعلی عہدوں پر کام کرنے والی خواتین میڈیا ایگزیکٹوز کے درمیان رابطے بڑھانا اور کم تجربہ کار صحافیوں کو تنخواہوں اور پروموشنز کے لئے بہتر انداز سے انتظامیہ سے مذاکرات کی تربیت دینے کے اہداف طے کئے گئے ہیں ۔