پاکستان میں کام کرنے والی خواتین کو درپیش مشکلات

بہت سی خواتین کا کہنا ہے کہ وہ لوکل بسوں میں سفر کرتے ہوئے خود کو محفوظ تصور نہیں کرتیں۔ بعض اوقات انہیں سیٹ حاصل کرنے کے لیے ایک ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔
عالمی ادارہ برائے محنت کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں خواتین کی آبادی کا پانچواں حصہ کام کرتا ہے۔ ان خواتین کو روزانہ کی بنیاد پر ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ لیکن پاکستانی خواتین کی اکثریت پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام سے نالاں دکھائی دیتی ہے۔ جبکہ بس ڈرائیور کہتے ہیں کہ وہ بس کی سیٹوں پر بیٹھے مرد حضرات کو اس بات پر آمادہ نہیں کر سکتے کہ وہ خواتین کے لیے نشستیں خالی کردیں۔

بہت سی خواتین کا کہنا ہے کہ وہ لوکل بسوں میں سفر کرتے ہوئے خود کو محفوظ نہیں سمجھتیں۔ بعض اوقات انہیں سیٹ حاصل کرنے کے لیے ایک ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔

فرزانہ لیاقت کہتی ہیں کہ بسوں میں سفر کے دوران خواتین کے ساتھ چھیڑچھاڑ جیسے واقعات عام ہیں۔ ان کے الفاظ میں، ’’نہ تو ڈرائیور اور نہ ہی پولیس اس سلسلے میں خواتین کی مدد کر سکتی ہے۔ ان دنوں پولیس کسی کی حفاظت نہیں کر سکتی۔ کرپشن اور دہشت گردی عام ہے۔ خواتین بالکل بھی محفوظ نہیں ہیں۔ انہیں اپنی حفاظت خود کرنا پڑتی ہے۔‘‘

پبلک ٹرانسپورٹ میں ہراساں کیے جانے والے واقعات جیسے مسائل ان مسائل میں سے چند ہیں جن کا پاکستان میں کام پر جانے والی خواتین کو روزانہ کی بنیاد پر سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سید سعد گیلانی عالمی ادارہ ِ محنت سے منسلک ہیں اور کہتے ہیں کہ بہت سی غریب یا مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین ان مسائل کی وجہ سے کام چھوڑ کر گھر بیٹھنا زیادہ مناسب تصور کرتی ہیں۔ ان کے مطابق، ’’اس وقت پاکستان میں سو خواتین میں سے محض ایک خاتون کو ایسی ملازمت دستیاب ہے جہاں وہ مکمل طور پر محفوظ ہو۔‘‘


افتحار احمد ایک دکاندار ہیں اور کہتے ہیں کہ خواتین کے لیے سکول پر یا کام پر جانا ایک مشکل کام ہے۔ ان کے الفاظ میں، ’’اگر میں اپنے گھر کی خواتین کو تعلیم کے لیے یا کام کے لیے باہر بھیجوں گا تو پہلے تو مجھے اسے بس تک چھوڑنے کے لیے جانا پڑے گا۔ پھر مجھے بس ڈرائیور سے بات کرنا پڑے گی کہ وہ اسے اس کی منزل تک پہنچا دے۔‘‘

ماہرین کہتے ہیں کہ حکومت ِ پاکستان نے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف ایک قانون بنایا ہے۔ لیکن پاکستان میں اس قانون کے بارے میں آگہی کم ہے۔

فرزانہ باری، قائد ِ اعظم یونیورسٹی میں ’جینڈر اسٹڈیز‘ کا مضمون پڑھاتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس روئیے میں تبدیلی لانے کے لیے سوچ میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔ ان کے مطابق، ’’ہم لوگوں کی سوچ اس لیے نہیں بدل سکے کہ ہم انہیں تعلیم کی سہولت نہیں دے سکے۔ ہم انہیں یہ نہیں سکھا سکے کہ معاشرے میں کام پر جانے والی خواتین کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیئے اور نہ ہی ہم خواتین کو اس طرح سے ہراساں کیے جانے کے خلاف مدافعت کرنا سکھا سکے۔‘‘

فرزانہ باری کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب یونیورسٹی میں ان کی طالبات جنس کی بنیاد پر تفریق کیے جانے پر سوال اٹھاتی ہیں تو انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ’’میری طالبات کہتی ہیں کہ وہ اس بارے میں بات کرتی ہیں۔ لیکن ان کے خاندان والے ان خیالات کی نفی کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘

ماہرین کہتے ہیں کہ معاشرے میں حکومت کی طرف سے ہراساں کیے جانے والے قانون کے بارے میں آگہی پھیلانا زیادہ ضروری ہوتا جا رہا ہے تاکہ کام کرنے والی خواتین اس قانون کی مدد سے اپنا تحفظ یقینی بنا سکیں۔