1970ء میں پہلا یومِ ارض یعنی ارتھ ڈے منائے جانے سے قبل بہت سے امریکیوں میں یہ تشویش پیدا ہو رہی تھی کہ دنیا میں ہوا اور پانی کو بلا دریغ آلودہ کیا جا رہا ہے اور جنگلات اور دوسرے اہم ماحولیاتی نظام تباہ ہو رہے ہیں۔
ڈینس ہِیز جو اس زمانے میں ہارورڈ یونیورسٹی میں قانون کے طالب علم تھے، پہلے ارتھ ڈے کے نیشنل کوآرڈینیٹر تھے۔ وہ کہتے ہیں’’لاس انجیلیس میں اندازہ یہ تھا کہ صرف سانس لینے میں آپ کے جسم میں سگریٹ کے دو پیکٹ پینے کے برابر دھواں پہنچ جاتا تھا۔ہمارے دریاؤں میں آلودگی کی وجہ سے آگ لگ رہی تھی، ہماری جھیلیں تباہ ہو رہی تھیں۔ ہمارا قومی نشان، گنجا عقاب نا پید ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا۔ غرض آلودگی کی وجہ سے ہر طرف تباہی پھیل رہی تھی۔‘‘
ہیز کہتے ہیں کہ ارتھ ڈے کا تصوربڑی تیزی سے مقبول ہو گیا اور 22 اپریل کو پورے امریکہ میں جو تقریبات ہوئیں ان میں ہر دس امریکیوں میں سے ایک نے حصہ لیا۔ ملک بھر میں جلسے ہوئے، کنسرٹ ہوئے، درخت لگائے گئے اور لوگوں نے اپنی بستیوں میں چشموں اور پارکوں کو صاف کیا۔بنیادی خیال یہ تھا کہ کیڑے مار دواؤں کے استعمال اور رہائشی علاقوں کے درمیان شاہراہوں کی تعمیر اور ہوا اور پانی کی آلودگی کے خلاف کام کرنی والی تنظیمیں ہوں یا دلدلی علاقوں کی بقا کی جد وجہد کرنے والے گروپ، سب ایک ہی مقصد کے لیےکام کر رہے ہیں۔ انہیں الگ الگ تنظیموں کی شکل میں کام کرنے کے بجائے ایک ساتھ مِل کر کام کرنا چاہیئے۔
پہلے یومِ ارض میں عوام نے جس جوش و خروش سے حصہ لیا اس کے نتیجے میں امریکی کانگریس نے ہوا، پانی اور زندگی کی ایسی اقسام کی حفاظت کے لیے جن کے معدوم ہو جانے کا خطرہ تھا، قوانین منظور کیے اور ماحول کے تحفظ کے لیے ایک علیحدہ محکمہ ’’انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی‘‘ قائم کیا۔ 40 سال بعد اب ارتھ ڈے ساری دنیا میں منایا جانے لگا ہے۔ 191 ملکوں میں اندازاً ایک ارب لوگ بے شمار سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ بہت سے پروگرام امریکہ میں قائم گروپ، ارتھ ڈے نیٹ ورک کے تعاون سے منظم کیے جاتے ہیں۔
امریکہ میں یومِ ارض کی سرگرمیوں کا مرکز دارالحکومت واشنگٹن ہوتا ہے۔ یہاں گذشتہ اختتام ہفتہ نیشنل مال کے سبزہ زار پر 9 روزہ پروگراموں کا آغاز ہوا۔ رضاکاروں کی مدد سے امریکہ کی پارک سروس نے مال کے وسیع و عریض سبزہ زار کی صفائی اور تراش خراش شروع کی ۔
نیشنل مال کو ایک قسم کے ماحولیاتی گاؤں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہاں شامیانوں میں نمائشیں لگی ہوئی ہیں اور آرٹسٹوں نے کرۂ ارض کے مختلف روپ پیش کیے ہیں۔ ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنی والی بہت سی تنظیمیں، غیر ملکی سفارت خانے، وفاقی ایجنسیاں، EPA ، ناسا اور بہت سی کمپنیاں ان پروگراموں میں حصہ لے رہی ہیں۔ یہاں بڑی تعداد میں بچے اور بڑے سب ہی موجود ہیں۔
ارتھ ڈے نیٹ ورک کے 2010ء کی مہم کے ڈائریکٹر نیٹ بائر کہتے ہیں کہ ان پروگراموں میں عام لوگوں کی شرکت سے اہم تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔ اگرچہ انٹرنیٹ کی وجہ سے لوگوں کے درمیان رابطہ بہت آسان ہو گیا ہے لیکن 1970ء کے ارتھ ڈے سے لوگوں میں ماحول کے تحفظ کے بارے میں جو جذبہ بیدار ہوا تھا وہ آج بھی زندہ ہے۔ یہاں امریکی کیپیٹل کی عمارت کے دامن میں، مال کے سبزہ زار پر ، ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ جمع ہوئے ہیں۔ وہ امریکی کانگریس پر زور دے رہےہیں کہ وہ ہمارے دور کے انتہائی اہم ماحولیاتی مسئلے، یعنی آب و ہوا کی تبدیلی کے بارے میں اقدام کرے۔
نیٹ بائر کا کہنا ہے ’’یہ لوگ آب و ہوا کے بارے میں قانون کا مطالبہ کر رہے ہیں کیوں کہ اس قسم کے قانون سے لوگوں کو روزگار ملے گا، قومی سلامتی کی ضمانت ملے گی، اور ہمارے بچوں اور ہمارے بچوں کے بچوں کو یہ اطمینان ہوگا کہ انہیں ایسا ماحول ملے گا جس میں وہ پھل پھول سکیں گے ۔‘‘
ڈینس ہیز اس خیال سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 1970 ء کے یومِ ارض کے برعکس جس میں ماحول کے مقامی اور قومی مسائل پر زور دیا گیا تھا، آج ہماری توجہ عالمی مسائل پر ہونی چاہیئے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے کیوں کہ آب و ہوا کی تبدیلی جیسا مسئلہ ، کسی ایک ملک کی کوششوں سے حل نہیں ہو سکتا۔
واشنگٹن میں ارتھ ڈے کے پروگرام پورے ہفتے جاری رہیں گے اور اتوار کے روز نیشنل مال پر کلائمٹ ریلی پر ختم ہوں گے۔ آب و ہوا کے بارے میں اس جلسے میں ملک کے مشہور فنکار موسیقی پیش کریں گے اور ماحول کی بہتری کے لیے سرگرم ممتاز شخصیتوں کی تقریریں ہوں گی۔ ارتھ ڈے نیٹ ورک نےامریکہ بھر میں اور ساری دنیا میں اسی قسم کے پروگراموں کا اہتمام کیا ہے۔ منتظمین کو امید ہے کہ یومِ ارض سے ماحول کی بہتری کے لیے کام کرنے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو گی اور وہ اپنے جوش و جذبے کو مثبت اقدامات کی شکل دے سکیں گے۔