شام کے سیاسی مستقبل کے بارے میں ویانا میں ہونے والا اہم اجلاس ختم ہو گیا ہے اور اس میں شریک عالمی طاقتوں نے اقوام متحدہ کی سربراہی میں شامی حکومت اور حزب مخالف کے درمیان مذاکرات سمیت جنگ بندی کے عمل پر اتفاق کیا ہے۔
اس منصوبے کے بنیادی خدوخال کا اعلان امریکی وزیرخارجہ جان کیری، ان کے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے استیفاں ڈی مستورا نے جمعہ کو دیر گئے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔
تقریباً سات گھنٹوں تک جاری رہنے والے اجلاس میں اقوام متحدہ اور یورپی یونین سمیت 17 مختلف ملکوں کے نمائندے شریک ہوئے اور شرکا نے ایسا ہی ایک اجلاس آئندہ دو ہفتوں کے دوران دوبارہ منعقد کرنے پر بھی اتفاق کیا۔
جان کیری کا کہنا تھا کہ "ہم دو جہتی حکمت عملی کا استعمال کر رہے ہیں۔ ہم داعش کے خلاف اپنی مہم اور تنازع کے حل کے لیے سفارتی کوششوں کو تیز کر رہے ہیں۔"
سرگئی لاوروف نے کہا کہ گو کہ اجلاس میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے لیکن شام کے صدر بشار الاسد کے مسقبل کے بارے میں کسی بات پر اتفاق نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ روس کا ماننا ہے کہ ملک کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ شام کے عوام پر منحصر ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادی کہتے ہیں کہ شام کے لیے کسی بھی دیرپا حل صدر اسد شامل نہیں ہوسکتے۔
اجلاس میں شام سے متعلق منصوبے کے خدوخال کا تذکرہ ایک مشترکہ اعلامیہ میں کیا گیا جس میں کہا گیا کہ "گوکہ اب بھی فریقین میں بہت سے اختلافات ہیں لیکن وہ بعض امور پر باہمی رضامند ہوئے ہیں جن میں شام میں طرز حکمرانی کا منصوبہ بھی شامل ہے۔"
کیری کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی زیر قیادت منصوبے میں شام کی حکومت اور حزب مخالف کے نمائندے مل کر ایک سیاسی عمل مرتب کرنے کے لیے کام کریں گے جس سے "قابل اعتماد، اور تمام فریقین" کی شمولیت ہوگی اور پھر ملک میں نئے آئینی انتخابات کروائے جائیں گے۔
یہ انتخابات اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہوں گے۔