امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے صدر بشار الاسد کی سربراہی میں قائم شامی حکومت کو ایران کی جانب سے اسلحے کی فراہمی کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے اسے فوری روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
واشنگٹن —
امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے ایران کی جانب سے صدر بشار الاسد کی سربراہی میں قائم شامی حکومت کو اسلحے کی فراہمی کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے اسے فوری روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایران پر عائد عالمی پابندیوں کے نفاذ کے جائزے کے لیے جمعرات کو ہونے والے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں تینوں ممالک کے سفیروں نے یورینیم کی افزودگی نہ روکنے اور اپنے جوہری پروگرام پر عالمی طاقتوں کے ساتھ بامقصد مذاکرات نہ کرنے پر بھی ایران کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
اجلاس سے خطاب میں اقوامِ متحدہ کے لیے امریکہ کی سفیر سوسن رائس نے عالمی ادارے کی ایران پر عائد پابندیوں کی نگران کمیٹی پر زور دیا کہ وہ ایرانی حکومت کی جانب سے دنیا بھر کے شدت پسند گروہوں کو اسلحے کی فراہمی روکنے کی کوششوں پر توجہ مرکوز کرے۔
سفیر رائس کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کے تحت ایران کسی بھی ملک کو ہتھیار اور متعلقہ مواد برآمد نہیں کرسکتا لیکن اس کے باوجود تہران کی جانب سے شام کی اسد حکومت کو ہتھیاروں کی فراہمی پریشان کن ہے۔
امریکی سفیر نے علاقائی ممالک پر زور دیا کہ وہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرتے ہوئے ایران کی جانب سے شام بھیجے جانے والے ہتھیاروں کی غیر قانونی کھیپ کو روکنے کی کوششیں تیز کریں۔
یاد رہے کہ ایرانی فوج 'پاسدارانِ انقلاب' کے ایک کمانڈر نے رواں ہفتے شام میں اپنے فوجیوں کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ شام میں موجود ایرانی اہلکار شامی حکام کو غیر فوجی معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن ایک روز بعد ایران کی وزارتِ خارجہ نے فوجی کمانڈر کے اس بیان کی تردید کردی تھی۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران سول طیاروں کے ذریعے اپنے فوجی اور ہتھیار عراقی فضائی حدود سے گزار کر شام بھیج رہا ہے۔
سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب میں عالمی ادارے میں فرانس کے سفیر جیغا غو کا کہنا تھا کہ شامی حکام کی مدد کرکے ایران نے خود پر عائد اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
اپنے خطاب میں برطانوی سفیر مارک لائل گرانٹ نے کہا کہ ایران کی جانب سے شامی حکومت کو ہتھیاروں کی فراہمی ناقابلِ قبول ہے جسے ہر صورت روکا جانا چاہیے۔
تینوں عالمی طاقتوں کے نمائندوں نے اقوامِ متحدہ کے مطالبات کے باوجود ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی نہ روکنے اور اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں موجود عالمی برادری کے خدشات دور کرنے میں ناکامی پر بھی تہران حکومت پر تنقید کی۔
سفیروں کا کہنا تھا کہ ان کی حکومتیں ایران کے جوہری تنازع کا مذاکرات کے ذریعے پرامن حل تلاش کرنے پر متفق ہیں لیکن ان کے بقول اس کے لیے ضروری ہے کہ ایران سنجیدگی کے ساتھ ان مذاکرات کا حصہ بنے۔
ایران پر عائد عالمی پابندیوں کے نفاذ کے جائزے کے لیے جمعرات کو ہونے والے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں تینوں ممالک کے سفیروں نے یورینیم کی افزودگی نہ روکنے اور اپنے جوہری پروگرام پر عالمی طاقتوں کے ساتھ بامقصد مذاکرات نہ کرنے پر بھی ایران کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
اجلاس سے خطاب میں اقوامِ متحدہ کے لیے امریکہ کی سفیر سوسن رائس نے عالمی ادارے کی ایران پر عائد پابندیوں کی نگران کمیٹی پر زور دیا کہ وہ ایرانی حکومت کی جانب سے دنیا بھر کے شدت پسند گروہوں کو اسلحے کی فراہمی روکنے کی کوششوں پر توجہ مرکوز کرے۔
سفیر رائس کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کے تحت ایران کسی بھی ملک کو ہتھیار اور متعلقہ مواد برآمد نہیں کرسکتا لیکن اس کے باوجود تہران کی جانب سے شام کی اسد حکومت کو ہتھیاروں کی فراہمی پریشان کن ہے۔
امریکی سفیر نے علاقائی ممالک پر زور دیا کہ وہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرتے ہوئے ایران کی جانب سے شام بھیجے جانے والے ہتھیاروں کی غیر قانونی کھیپ کو روکنے کی کوششیں تیز کریں۔
یاد رہے کہ ایرانی فوج 'پاسدارانِ انقلاب' کے ایک کمانڈر نے رواں ہفتے شام میں اپنے فوجیوں کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ شام میں موجود ایرانی اہلکار شامی حکام کو غیر فوجی معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن ایک روز بعد ایران کی وزارتِ خارجہ نے فوجی کمانڈر کے اس بیان کی تردید کردی تھی۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران سول طیاروں کے ذریعے اپنے فوجی اور ہتھیار عراقی فضائی حدود سے گزار کر شام بھیج رہا ہے۔
سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب میں عالمی ادارے میں فرانس کے سفیر جیغا غو کا کہنا تھا کہ شامی حکام کی مدد کرکے ایران نے خود پر عائد اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
اپنے خطاب میں برطانوی سفیر مارک لائل گرانٹ نے کہا کہ ایران کی جانب سے شامی حکومت کو ہتھیاروں کی فراہمی ناقابلِ قبول ہے جسے ہر صورت روکا جانا چاہیے۔
تینوں عالمی طاقتوں کے نمائندوں نے اقوامِ متحدہ کے مطالبات کے باوجود ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی نہ روکنے اور اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں موجود عالمی برادری کے خدشات دور کرنے میں ناکامی پر بھی تہران حکومت پر تنقید کی۔
سفیروں کا کہنا تھا کہ ان کی حکومتیں ایران کے جوہری تنازع کا مذاکرات کے ذریعے پرامن حل تلاش کرنے پر متفق ہیں لیکن ان کے بقول اس کے لیے ضروری ہے کہ ایران سنجیدگی کے ساتھ ان مذاکرات کا حصہ بنے۔