پاکستان پانی کے حوالے سے دوہرے مسائل کا شکار ہے۔ ایک جانب یہاں سارا سال پانی کی قلت رہتی ہے تو دوسری جانب عوامی آگہی نہ ہونے کے سبب اسے ضائع کردیا جاتا ہے۔ عالمی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ ملکی دریا صحراوٴں میں تبدیل ہو رہے ہیں، اس کے باوجود عوامی سطح پر پانی کو محفوظ بنانے سے متعلق آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔
صرف کراچی کی حد تک بات کریں تو میگا سٹی ہونے کے باوجود اس کے کئی علاقے آج بھی پانی کی متواتر فراہمی سے محروم ہیں۔
آمدنی کے اعتبار سے درمیانی طبقے کے شہریوں کی اکثریت نارتھ ناظم آباد میں رہائش پذیر ہے۔ یہ شہر کا وسطیٰ علاقہ ہے۔ لیکن، یہاں پانی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ پانی کی فراہمی کے لئے ’ادارہ فراہمی و نکاسی آب کراچی‘ ذمے دار ہے۔ لیکن، نارتھ ناظم آباد کے انگنت رہائشیوں نے وائس آف امریکہ کے نمائندے کو بتایا کہ یہاں کئی کئی دن پانی نہیں آتا۔
بلاک ’ایس‘ کے دیرینہ رہائشی، افتخار احمد نے بتایا ہے کہ ’علاقے میں ایک دن چھوڑ کر، ایک دن پانی آتا ہے۔ لیکن، اکثر و بیشتر یہ شیڈول برقرار نہیں رہ پاتا اور کئی کئی دن ناغہ ہوجاتا ہے۔‘
اورنگی ٹاوٴن کے مکینوں کا بھی سب سے بڑا مسئلہ ’پانی‘ ہے۔ اورنگی نمبر ڈھائی کے رہائشی، فرحان احمد کا کہنا ہے کہ یہاں پانی رات کے اوقات میں فراہم کیا جاتا ہے۔ اس لئے، راتوں کو جاگ جاگ کر پانی کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بار بار موٹر چلاکر دیکھنا پڑتا ہے کہ پانی آیا یا نہیں۔ انتظار انتظار میں کئی کئی راتیں ایسے ہی گزر جاتی ہیں۔ پھر پانی آبھی جائے تو پورا نہیں پڑتا۔ کمی دور کرنے کے لئے مہنگے داموں ٹینکر منگوانے پڑتے ہیں۔ ٹینکرز کا حصول بھی کوئی معمولی بات نہیں، اس کے لئے ہمت چاہئے ہوتی ہے۔۔۔لمبی لمبی لائنوں میں لگتا پڑا ہے ، منہ مانگے دام دینا پڑتے ہیں اور پھر بھی ٹینکرز سے گزارا نہیں ہوتا۔
پانی کی فراہمی میں غیر ضروری تاخیر تو مسئلہ ہے ہی پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورز کا کہنا ہے کہ جو پانی منرل واٹر کے نام پر بک رہا ہے وہ بھی اکثر آلودہ ہوتا ہے ۔ مزل واٹر اب ایک صنعت بنتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پورے ملک میں ’منرل واٹر کمپنیوں کی تعداد پچاس کے قریب ہوگئی ہے لیکن بہت کم کمپنیاں معیاری کہی جاسکتی ہیں۔
غیر سرکاری تنظیم ’ ایکشن ایڈ‘ کے مطابق پانی صرف کراچی کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ ملک کی 44فی صد آبادی پینے کے صاف پانی کی نعمت سے محروم ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، کراچی اور بہاول پور سمیت پاکستان کے کئی شہروں اور پورے بلوچستان میں پینے کا پانی کمیاب اور مضر صحت ہے۔
دنیا بھر میں 22 مارچ کو یوم آب منایا جاتا ہے۔ اس بار بھی پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ دن منایا گیا۔ ملک بھر میں اس حوالے سے مختلف تربیتی پروگرام ہوئے لیکن عوامی آگاہی کم ہونے کے سبب اس کے اثرات غیر موثر نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پانی کو محفوظ بنانے کے بجائے یوم آب پر بھی اسے ضائع کیا جاتا رہا۔
محکمہ فراہمی و نکاسی آب کراچی کے ایک عہدیدار شعیب احمد نے وی او اے سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پانی کی بوند بوند قیمتی ہی نہیں بلکہ انمول ہے لیکن عوام اس سے واقف نہیں یہی وجہ ہے کہ لوگ ہر صبح پائپ لگاکر بے دریغ پانی استعمال کرتے ہوئے گاڑیاں دھوتے نظر آتے ہیں۔ کئی کئی دن پائپ لائنیں پھٹی رہتی ہیں اور پانی ملسل ضائع ہوتا رہتا ہے لیکن کوئی پروا نہیں کرتا۔‘
شعیب مزید بتاتے ہیں کہ، ’لوگ اپنے گھروں کے باہر بنے لان یا باغوں میں پانی کا پائپ موٹر لگا کر چھوڑ دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں اور پانی گھنٹوں تک ضائع ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح اوور ہیڈ ٹینک فل بھر جاتا ہے اور بہتا رہتا ہے جبکہ گھروالوں دوسرے کاموں میں مصروف ہو کر پانی بند کرنا بھول جاتے ہیں۔‘
شعیب کے مطابق، ’یہ وہ عام عادتیں ہیں جو ہر شہر کے تقریباً ہر گھر اور ہر شہری میں فروغ پاگئی ہیں۔ تیز نل کھول کر منہ دھونا، وضو کرنا، شاور کو دیر تک کھل رکھ کر تصور میں بے موسم بارش کے مزے لینا، غسل کے لئے باتھ روم میں بڑے بڑے ٹب بنوانا۔۔۔یہ سب وہ چیزیں ہیں جو ذرا سی احتیاط برتنے سے ختم ہوسکتی ہیں۔ لیکن آگاہی نہ ہونے کے سبب پانی کی اہمیت کو سب نظر انداز کربیٹھے ہیں جبکہ خدشہ یہ ظاہر کیا جارہا ہے آئندہ برسوں میں پانی کے لئے بھی جنگیں ہوا کریں گی۔ ‘