فلسطینی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجوں نے جو غزہ کی اب تک کی سب سے ہلاکت خیز جنگ میں مغربی خان یونس کے اندر پیش قدمی کر رہی ہیں، پیر کے روز ایک اسپتال پر دھاوا بولا ہے۔ اور دوسرے کا محاصرہ کر لیا ہے۔ اور یوں زخمیوں کے لیے علاج کے راستے بند ہو گئےہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے ترجمان اشرف القدرا نے رائٹر کو بتایا کہ ان فوجوں نے پہلی بار، جنوبی غزہ کے بڑے شہر خان یونس کے مغرب میں بحیرہ روم کے ساحل کے نزدیک ماواسی ضلع میں پیش قدمی کی ہے۔ جہاں انہوں نے الخیر اسپتال پر ہلہ بولا اور وہاں کے طبی عملے کو گرفتار کیا۔
SEE ALSO: غزہ جنگ، آئندہ نسلوں کے لیے نفرتوں کے بیج بو رہی ہے: جوزف بوریلاسرائیل نے اسپتال کی صورت حال کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ نہ ہی فوجی ترجمان کے دفتر سے بھی کچھ بتایا گیا ہے ۔ تاہم دن کے بعد کے حصے میں فوج نے بتایا کہ پیر کو جنوبی غزہ میں اس کے تین فوجی مارے گئے۔
ترجمان اشرف القدرا نے کہا ہے کہ خان یونس میں راتوں رات کم از کم پچاس افراد مارے گئے جب کہ طبی سہولتوں کے محاصرے کا مطلب ہے کہ درجنوں ہلاک شدگان اور زخمی انہیں بچانے اور نکالنے والوں کی پہنچ سے باہر تھے۔
فلسطینی ہلال احمر نے بتایا کہ ٹینکوں نے خان یونس میں ایک اور اسپتال العمل کو بھی محاصرے میں لے لیا ہے۔ جو امدادی ایجنسی کا ہیڈ کوارٹرز ہے اور اس کا وہاں اپنے عملے سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈکراس اورہلا ل احمر کے ترجمان ٹوماسو ڈیلا لونگا نے بتایا کہ اسپتال کے گرد جو کچھ ہو رہا ہے اس بارے میں ہم سخت پریشان ہیں۔
SEE ALSO: بمباری سے بچنے کے لیے غزہ کے شہری پیدل اور گدھا گاڑیوں پر فرار ہونے لگےان کا کہنا ہے کہ ایمبولینس گاڑیاں نہ اندر جا سکتی ہیں نہ وہاں سے باہر آ سکتی ہیں اور ہم علاقے میں لوگوں کو ہنگامی بنیاد پر کوئی علاج معالجہ فراہم نہیں کر سکتے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے جنگجو اسپتالوں کے اندر اور اطراف میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ جس کی حماس اور طبی عملہ تردید کرتا ہے۔
SEE ALSO: غزہ جنگ: زخمی اسرائیلی فوجیوں کی بڑھتی تعداد پر تشویشاسرائیل نے خان یونس پر قبضے کے لیے گزشتہ ہفتے حملہ شروع کیا تھا۔ جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ وہ اب حماس کے عسکریت پسندوں کا سب سے بڑا ہیڈ کوارٹرز ہے۔ جو جنوبی اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملے کی ذمہ دار ہے جس میں اسرائیل کے فراہم کردہ اردو شمار کے مطابق 1340 لوگ مارے گئے تھے۔
جنگ کے تازہ ترین مرحلے میں لڑائی محصور علاقے کی آخری حدوں تک پہنچ گئی ہے۔ یہ علاقہ ان لوگوں سے بھرا ہوا ہے جو بمباری سے بچ کر بھاگے ہیں۔ اور غزہ کے صحت سے متعلق عہدیداروں کے مطابق اب تک کم از کم پچیس ہزار دو سو پچانوے لوگ مارے جا چکے ہیں۔
غزہ میں دس روز سے مواصلات یا انٹرنیٹ سروسز نہیں ہیں۔
النصر اسپتال
النصر اسپتال جو خان یونس کا سب سے بڑا اور واحد ایسا اسپتال ہے جو قابل رسائی ہے اور اب بھی کام کر رہا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس کے ٹراما وارڈ میں زخمیوں کا ہجوم ہے جو زمین پر پڑے ہیں جہاں ان کا علاج ہو رہا ہے اور فرش خون سے لتھڑا ہوا ہے۔
SEE ALSO: "میرے ابا گرفتار ہیں اور میں گھر جانا چاہتا ہوں"، غزہ کا دس سالہ بچہادھر برسلز میں فلسطینی اتھارٹی کے وزیر خارجہ ریاض المالکی نے رہورٹروں کو بتایا کہ غزہ میں صورت حال قابو سے باہر ہے اور انہوں نے یورپی یونین سے کہا کہ وہ جنگ بندی کا مطالبہ کرے۔
اسرائیل اس وقت تک جنگ روکنے کو تیار نہیں ہے جب تک وہ بقول اس کے حماس کو ختم نہیں کر دیتا۔ جب کہ فلسطینی اور کچھ مغربی فوجی ماہرین کہتے ہیں کہ گروپ کے مختلف حصوں میں منقسم ڈھانچے اور غزہ میں اس کی گہری جڑوں کے سبب یہ مقصد ناقابل حصول ہے۔
حماس کے جلا وطن سیاسی یونٹ کے سربراہ سمیع الزہری نے پیر کے روز رائٹرز کو بتایا کہ حماس تمام اقدامات اور تجاویز پر غور کے لئے تیار ہے لیکن کسی بھی معاہدے کی بنیاد جارحیت کے خاتمے، قبضے کے خاتمے اور غزہ سے مکمل واپسی پر ہونی چاہئیے۔
اس خبر کے لیے مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔