چین کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ میں دو سابق سرکاری عہدیداروں کو علیحدگی پسندی میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت سزائے موت سنائی گئی ہے۔
سنکیانگ کی ہائر پیپلز کورٹ کے نائب صدر وانگ لینگ تاؤ نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ ستار سووت اور شیر زات باؤدون کو انکی سزا میں دو سال کی معافی دی گئی ہے۔ ایسی سزائیں عام طور پر عمر قید کی سزا میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔
محکمہ تعلیم کے سابق عہدیدار ستار سووت کو ایغور زبان کی اسکول کی درسی کتابوں میں علیحدگی پسندی پر مبنی نسلی تشدد، دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کو شامل کرنے کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔
سنکیانگ کے علاقائی محکمہ انصاف کے سابق سربراہ، شیرذات باؤدون کو مشرقی ترکستان اسلامی تحریک کے ارکان کے ساتھ ساز باز کرنے کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔ اس تحریک کو اقوام متحدہ نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ان پر اپنی بیٹی کی شادی کے موقع پر غیرقانونی مذہبی سرگرمیوں کو انجام دینے کے بھی الزامات ہیں۔
بیجنگ نے سنکیانگ میں ایک مہم کا آغاز کیاہوا ہے جس کے تحت سنکیانگ میں رہنے والے دس لاکھ سے زیادہ اقلیتی ایغور، قازق اور دیگر اقلیتی مسلم گروہوں کو جبری طور پر "اصلاحی کیمپس" میں رکھا گیا ہے۔
چین کی حکومت کا کہنا ہے کہ حراست میں لئے گئے افراد کو مختلف پیشوں اور چین مخالف جذبات یا انتہا پسندی کی طرف راغب ہونے سے روکنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ امریکہ نے چین کے ان اقدامات کی سختی سے مذمت کی ہے اور اِسے ایغور مسلمانوں کی نسل کشی کے مترادف قرار دیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا منگل کے روز کہنا تھا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ اس بارے میں بات چیت کرے گا کہ چین کے اپنی مسلمان ایغور برادری اور دیگر اقلیتی گروپوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز تحریک کو دبانے کی وجہ سے بیجنگ میں سن 2022 کے سرمائی اولمپکس کا ممکنہ بائیکاٹ کیا جائے۔