یونو کووچ نے اپنے مخالفین پر الزام لگایا کہ وہ خوف اور دہشت کے ذریعے یوکرین پر اپنا قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔
واشنگٹن —
یوکرین کے برطرف صدر وکٹر یونو کووچ روس پہنچ گئے جہاں انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ انہیں اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے لیکن وہ "یوکرین کے مستقبل کے لیے اپنی لڑائی جاری" رکھیں گے۔
پیر کو روس کے علاقے روستوو آن ڈان میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جناب یونو کووچ نے اپنے مخالفین پر الزام لگایا کہ وہ خوف اور دہشت کے ذریعے یوکرین پر اپنا قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے اپنی جگہ اقتدار سنبھالنے والی عبوری حکومت کو "غیر قانونی" قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ اب بھی یوکرین کے صدر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان سے چند "فاشسٹ نوجوانوں" نے حکومت چھینی ہے جو ان کے بقول یوکرین میں اقلیت میں ہیں۔
معزول صدر نے کہا کہ یوکرین میں جاری موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کا واحد راستہ اس معاہدے پر عمل درآمد ہے جو ان کی حکومت ختم ہونے سے ایک روز قبل حکومت اور حزبِ اختلاف میں طے پایا تھا۔
مذکورہ معاہدے کے تحت رواں سال کے اختتام تک ملک میں نئے انتخابات ہونا تھے۔
جناب یونو کووچ نے یوکرین میں پیش آنے والے حالیہ پرتشدد واقعات کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ دارالحکومت کیوو کی سڑکوں اور چوراہوں کومظاہرین سے فوری طور پر خالی کرایا جائے اور دارالحکومت کا قبضہ مسلح لوگوں سے چھڑانے کے اقدامات کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین میں جو کچھ ہوا وہ اس پر اپنے ملک کے لوگوں سے معافی مانگتے ہیں۔ یونوکووچ کا کہنا تھاکہ ان میں ملک میں جاری لاقانونیت روکنے کی استطاعت نہیں تھی اور اسی وجہ سے وہ یوکرین کا استحکام برقرار نہیں رکھ سکے۔
خیال رہے کہ یوکرین کی پارلیمان نے گزشتہ ہفتے یونوکووچ کو اقتدار سے برطرف کردیا تھا جس کے بعد وہ کیوو سے فرار ہوکر کہیں روپوش ہوگئے تھے جس کے بعد و ہ جمعے کو روس میں کی جانے والی پریس کانفرنس میں منظرِ عام پر آئے ہیں۔
یونوکووچ کی جگہ اقتدار سنبھالنے والی عبوری حکومت نے رواں ہفتے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں جن میں ان پر اور ان کی حکومت کے دیگر حکام پر مظاہرین کے قتلِ عام کا الزام لگایا گیا ہے۔
صدر یونوکووچ کی معزولی پہ منتج ہونے والا یوکرائن کا حالیہ سیاسی بحران تین ماہ قبل روس نواز یونو کووچ کی جانب سے یورپ کے بجائے روس کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنے کے اعلان کے بعد پیدا ہوا تھا۔
صدر کے اس اعلان کے خلاف ملک کی یورپ نواز حزبِ اختلاف نے پرتشدد احتجاجی مظاہرے اور دھرنے شروع کردیے تھے جس کے باعث دارالحکومت میں معمولاتِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئے تھے۔
پیر کو روس کے علاقے روستوو آن ڈان میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جناب یونو کووچ نے اپنے مخالفین پر الزام لگایا کہ وہ خوف اور دہشت کے ذریعے یوکرین پر اپنا قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے اپنی جگہ اقتدار سنبھالنے والی عبوری حکومت کو "غیر قانونی" قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ اب بھی یوکرین کے صدر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان سے چند "فاشسٹ نوجوانوں" نے حکومت چھینی ہے جو ان کے بقول یوکرین میں اقلیت میں ہیں۔
معزول صدر نے کہا کہ یوکرین میں جاری موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کا واحد راستہ اس معاہدے پر عمل درآمد ہے جو ان کی حکومت ختم ہونے سے ایک روز قبل حکومت اور حزبِ اختلاف میں طے پایا تھا۔
مذکورہ معاہدے کے تحت رواں سال کے اختتام تک ملک میں نئے انتخابات ہونا تھے۔
جناب یونو کووچ نے یوکرین میں پیش آنے والے حالیہ پرتشدد واقعات کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ دارالحکومت کیوو کی سڑکوں اور چوراہوں کومظاہرین سے فوری طور پر خالی کرایا جائے اور دارالحکومت کا قبضہ مسلح لوگوں سے چھڑانے کے اقدامات کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین میں جو کچھ ہوا وہ اس پر اپنے ملک کے لوگوں سے معافی مانگتے ہیں۔ یونوکووچ کا کہنا تھاکہ ان میں ملک میں جاری لاقانونیت روکنے کی استطاعت نہیں تھی اور اسی وجہ سے وہ یوکرین کا استحکام برقرار نہیں رکھ سکے۔
خیال رہے کہ یوکرین کی پارلیمان نے گزشتہ ہفتے یونوکووچ کو اقتدار سے برطرف کردیا تھا جس کے بعد وہ کیوو سے فرار ہوکر کہیں روپوش ہوگئے تھے جس کے بعد و ہ جمعے کو روس میں کی جانے والی پریس کانفرنس میں منظرِ عام پر آئے ہیں۔
یونوکووچ کی جگہ اقتدار سنبھالنے والی عبوری حکومت نے رواں ہفتے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں جن میں ان پر اور ان کی حکومت کے دیگر حکام پر مظاہرین کے قتلِ عام کا الزام لگایا گیا ہے۔
صدر یونوکووچ کی معزولی پہ منتج ہونے والا یوکرائن کا حالیہ سیاسی بحران تین ماہ قبل روس نواز یونو کووچ کی جانب سے یورپ کے بجائے روس کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنے کے اعلان کے بعد پیدا ہوا تھا۔
صدر کے اس اعلان کے خلاف ملک کی یورپ نواز حزبِ اختلاف نے پرتشدد احتجاجی مظاہرے اور دھرنے شروع کردیے تھے جس کے باعث دارالحکومت میں معمولاتِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئے تھے۔