بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ تازہ جھڑپ میں چھ مبینہ عسکریت پسند ہلاک ہوگئے ہیں جس کے بعد سال بھر کے دوران وادی میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 440 سے تجاوز کرگئی ہے۔
ہفتے کو ہونے والی جھڑپ شورش زدہ ریاست کے جنوبی ضلع پُلوامہ کے ترال علاقے میں ہوئی۔
بھارتی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کا تعلق القاعدہ کی بھارت میں سرگرم شاخ 'انصار غزوۃ الہند' سے تھا اور مرنے والوں میں تنظیم کا نائب صالح محمد آخون بھی شامل ہے۔
ہلاک ہونے والے سبھی مبینہ عسکریت پسند مقامی کشمیر ی تھے۔ واقعے کی خبر پھیلتے ہی پلوامہ میں جگہ جگہ مظاہرے پھوٹ پڑے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کی تدفین میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔
Your browser doesn’t support HTML5
سرینگر میں پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا ہے کہ جھڑپ کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
ترجمان نے یہ بھی کہا کہ ہلاک ہونے والے عسکریت پسند سکیورٹی اہلکاروں پر ماضی میں کیے جانے والے کئی حملوں اور دیگر پر تشدد کارروائیوں میں ملوث تھے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سال 2018 کے دوران تشدد کے بد ترین واقعات پیش آئے ہیں اور رواں سال وادی کے لوگوں کے لیے گزشتہ ایک دہائی کا سب سے ہلاکت خیز سال ثابت ہوا ہے۔
سال کے دوران خاص طور پر شورش زدہ وادئ کشمیر کے جنوبی اضلاع شوپیان، کلگام، پلوامہ اور اننت ناگ میں صورتِ حال ابتر رہی۔
پولیس کی طرف سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال کے دوران ریاست میں اب تک 441 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں 259 مبینہ عسکریت پسند، 97 فوجی اور دوسرے سکیورٹی اہلکار اور 85 عام شہری شامل ہیں۔
اس سے قبل 2008ء میں ریاست کے لیے سب سے ہلاکت خیز سال رہا تھا جس کے دوران پانچ سو سے زائد افراد پرتشدد واقعات میں مارے گئے تھے۔ گزشتہ سال ریاست میں ہونے والی پرتشدد کارروائیوں میں 384 افراد کی جان گئی تھی۔
بھارتی حکام 2018ء میں اتنی بڑی تعداد میں عسکریت پسندوں کی ہلاکت کو ریاست میں گزشتہ تین دہائیوں سے جاری شورش اور عسکریت پسندی کے خلاف سکیورٹی فورسز کی ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
بھارتی حکام یہ بھی کہتے ہیں کہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں نہ صرف جاری رہیں گی بلکہ ان میں شدت بھی لائی جائے گی۔
تاہم ناقدین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کو مارنے سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پائی جانے والی سیاسی صورتِ حال میں بہتری کے بجائے مزید بگاڑ پیدا ہوگا کیونکہ ہر ہلاکت چاہے وہ عسکریت پسند کی ہو یا عام شہری کی لوگوں خاص طور پر نوجوان نسل میں پائی جانے والی بے چینی میں اضافے کا موجب بن رہی ہے۔
متنازع ریاست کے بھارت کے زیرِ انتظام علاقے میں جاری تشدد کی وجہ سے ریاست کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور خاص طور پر سیاحت اور تعلیم کے شعبوں پر منفی اثرات پڑے ہیں۔