سال 2018: افغانستان میں مہلک حملے، انتخابات اور طالبان کے ساتھ مذاکرات

فائل

افغانستان کے لیے یہ سال ہنگامہ خیز رہا، جس کا اختتام امید کی ایک کرن سے ہو رہا ہے، جب یوں لگتا ہے کہ طالبان کے ساتھ مفاہمتی عمل کا آغاز عین ممکن ہے۔

امریکی ایلچی برائے امن، زلمے خلیل زاد نے،جنھیں امریکی تاریخ کی سب سے طویل لڑائی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے لیے مقرر کیا گیا ہے، اب تک خطے کے تین دورے کر چکے ہیں، جس دوران اُنھوں نے علاقائی ملکوں اور طالبان کے ساتھ رابطہ کیا ہے۔

کئی ایسی باتیں سامنے آئی ہیں جن کے نتیجے میں پیش رفت ممکن ہوئی۔ ان میں سب سے اہم ترین معاملہ یہ ہے کہ امریکہ نے طالبان سے براہ راست بات چیت نہ کرنے کے اپنا طویل مؤقف تبدیل کر دیا ہے۔

خلیل زاد نے کہا ہے کہ ’’افغانستان کے لیے میری سوچ یہ ہے کہ افغانستان وہ ملک ہوگا جہاں امن ہو، ایسا افغانستان جو کامیاب ہو، وہ افغانستان جو اپنے لیے خطرے کا باعث نہ بنے، یعنی افغانوں کے درمیان امن برقرار ہو، اور ایک ایسا افغانستان جو بین الاقوامی برادری کے لیے خطرے کا باعث نہ بنے، چونکہ میں افغانستان کی نمائندگی کرتا ہوں، اس لیے خاص طور پر یہ کہ وہ امریکہ کے خطرہ نہ بنے‘‘۔

موسم گرما کے دوران، امریکی محکمہٴ خارجہ کی سفارت کار ایلس ویلز نے دوحہ میں طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کی۔

افغان صدر اشرف غنی نے سال بھر کئی مرتبہ طالبان کو امن بات چیت کی پیش کش کی، جس کا آغاز فروری میں ایک مربوط منصوبے کے ساتھ ہوا، جب اُنھوں نے کابل میں طالبان کو ایک سیاسی دفتر کی پیش کش کی اور طالبان رہنماؤں پر پابندیاں ہٹائیں۔ تاہم، باغیوں نے اُن کی پیش کش کو نظرانداز کیا، یہ کہتے ہوئے کہ حکومت امریکیوں کی کٹھ پتلی ہے، اور اُن کا اہم مطالبہ پورا نہیں کر پائیں گے، جس کا تعلق تمام غیر ملکی افواج کے انخلا سے ہے۔

جنگ کے شکار ملک سے اس سال موصول ہونے والی سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ عید کے موقعے پر جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ سترہ برس کی لڑائی کے بعد جون میں مسلمانوں کے متبرک تہوار، عید الفطر کےموقعے پر دونوں فریق نے فیصلہ کیا کہ تین روز کے لیے لڑائی روک دی جائے گی۔

اس دوران، شدت پسندوں کے افغان شہریوں کے ساتھ ملنے کے غیر معمولی مناظر سامنے آئے جن میں ’سیلفیز‘ لینے، گلے ملنے، ہاتھ ملانے اور افغان سکیورٹی اہل کاروں کے ساتھ مسکرا کر ملنے پر مشتمل بہت ساری تصاویر سماجی میڈیا پر شائع ہوئیں۔

ایک طالب نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ’’ہمارے رہنماؤں نے سہ روزہ جنگ بندی کا حکم دیا ہے۔ ہم اہنے تمام معاملات کے تصفیئے کے لیے مستقل جنگ بندی کے خواہاں ہیں‘‘۔

ایک اور طالب نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’آپس میں ہم سب بھائی بھائی ہیں‘‘۔

ایسے میں جب یہ سب کچھ جاری تھا، تشدد کی کارروائیوں کی سطح بھی مستقل طور پر زوروں پر تھی۔ جنوری میں دارالحکومت کابل میں دو تباہ کُن حملے ہوئے جن میں ایک سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، جن میں 14 غیر ملکی بھی شامل تھے؛ طالبان نے ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے حملے جاری رکھے، جن میں افغان افواج کی صلاحیتوں کا سخت امتحان لیا گیا۔ غزنی شہر پر کئی اطراف سے حملہ ہوا جو کئی روز تک جاری رہا، جس دوران سیکڑوں کی تعداد میں حملہ آور اور شہری ہلاک ہوئے۔