ویب ڈیسک۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے جمعرات کے روز کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ان کے اس تبصرے سے جس میں انہوں نے چینی صدر شی جن پنگ کا حوالہ ایک ڈکٹیٹر کے طور پر دیا تھا امریکہ کے تعلقات متاثر یاپیچیدہ ہوئے ہیں ۔
بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ،” میں نہیں سمجھتا کہ اس کاکوئی واقعی اثر پڑا ہے" ۔ چین نے بائیڈن کے اس سے پہلے کےریمارکس کواشتعال انگیز قرار دیا تھا۔
اس سے قبل چینی صدر کے بارے میں صدر جو بائیڈن کے بیان پر چین کے ردعمل کے بعد امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے جمعرات کے روز کہا کہ یہ بات ’اہم‘ ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان تعلق کو برقرار رکھا جائے تاکہ وہ عالمی چیلنجوں پر ’مل کر کام ‘ کر سکیں۔
ییلن نے پیرس میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ جہاں تک تبصروں کا سوال ہے تو میرا خیال یہ ہے کہ صدر بائیڈن اور خود میں دونوں سمجھتے ہیں کہ بد گمانیوں اور غلط اندازوں کو دور کرنے کے لیے ابلاغ ضروری ہے۔ ہمیں ہر ممکن طور پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
وزیر خزانہ ییلن نے مزید کہا کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے درمیان اختلافات موجود ہیں ۔ییلن نے حال ہی میں امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی وکالت کی ہے اور ان کی دلیل ہے کہ عالمی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون نا گزیر ہے۔
صدر بائیڈن نے منگل کے روز ایک فنڈ ریزر میں یہ بھی کہا کہ چین کو ’’حقیقی معاشی مشکلات‘‘ کا سامنا ہے۔ اس بیان کے بعد امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کے دورہ چین کے اختتام کے فوراً بعد صورتحال میں کشیدگی آئی جبکہ وزیر خارجہ نے ایک ایسے تعلق کو بہتر بنا نے کی کوشش کی جو تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
چین نے جمعرات کو بائیڈن کےبیان پر باضابطہ احتجاج کیا ہے اورچین کے سفارت خانے کےایک ترجمان نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ چینی سفیر شیا فانگ نے وائٹ ہاؤس اور وزارت خارجہ کے حکام کو بتایا کہ بائیڈن کے بیان کے منفی اثرات کو ختم کرنے کے لیے واشنگٹن کو ’’مخلصانہ اقدام اٹھانے چاہیئں ‘‘ یا ’’ پھر نتائج کے لئے تیار رہنا چاہیے۔‘‘ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ چین کے سیاسی نظام اور اس کے کلیدی لیڈر کے بارے میں تازہ ترین غیر ذمہ دارانہ بیان سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے کی امریکی کوشش کے پر خلوص ہونے پر سوا ل اٹھ سکتے ہیں ۔چینی حکومت اور عوام اپنے کلیدی لیڈر کے خلاف کسی بھی نوعیت کی سیاسی اشتعال انگیزی کو قبول نہیں کرتے اور اس کا بھرپور جواب دیں گے۔‘‘
وائٹ ہاؤس کا نقطہ نظر
دوسری جانب امریکہ، صدر بائیڈن کے چینی صدر شی جن پنگ کو ایک آمر سے تشبیہ دینے کے بیان سے پیچھے نہیں ہٹ رہا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے بدھ کے روز وائس آف امریکہ کو بھیجے گئے ایک بیان میں کہا کہ ’’ اس میں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ صدران اختلافات کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں جو چین اور ہمارے درمیان موجود ہیں ۔ ہم یقینی طور پر اس صورتحال میں تنہا نہیں ہیں۔‘‘
یہ بیان خاص طور پر اس لئے بھی زیادہ توجہ کا مرکز بنا کیونکہ امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے ایک ہی روز قبل چین کا دورہ ختم کیا تھا جس کا مقصد دو طرفہ تعلقات کی بحالی کی کوشش تھا ۔ اگرچہ بلنکن کے دورے کے نتیجے میں کوئی بڑی پیش رفت سامنے نہیں آئی تاہم انہوں نے اور چین کے صدر شی جن پنگ نے امریکہ۔ چین اختلافات کو تنازعہ آرائی کی شکل اختیار کرنےسے روکنے پر اتفاق کیا ۔
واشنگٹن اس خیال کو مسترد کرتا ہے کہ بائیڈن کے بیان سے ان کی کلیدی سفارت کار ی کی کوششوں پر کوئی اثر مرتب ہو گا۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے بدھ کے روز اپنی بریفنگ میں کہا کہ ’’ہم ذمہ داری کے ساتھ اس تعلق کو قائم رکھیں گے۔ جمہوریہ چین کے ساتھ کھلے رابطے برقرار رکھیں گے لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ ہم اپنے اختلافات کو دو ٹوک اور واضح انداز میں سامنے نہ لائیں ۔‘‘
اس تلخ بیان بازی سے معلوم ہوتا ہے کہ دو حریف ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی کرنا اور ابلاغ کی بحالی ایک دشوار عمل ہے۔ ماسکو نے بھی بائیڈن کے بیان کی مذمت کی ہے ۔ روس کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن کا یہ بیان امریکی خارجہ پالیسی میں تسلسل کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے اور یہ پالیسی بدلتی رہتی ہے۔
بلنکن کے دورہ چین کے بعد آبنائے تائیوان میں کشیدگی
امریکی بحریہ کا کہنا ہے کہ امریکی کوسٹ گارڈ کا ایک جہاز بلنکن کے دورہ چین کے بعد آبنائے تائیوان سے گزرا اور اس بارے میں چین کا کہنا ہے کہ بیان عوامی توجہ حاصل کرنے کے لئے دیا گیا ہے۔
امریکی بحریہ کے ساتویں بیڑے نے جمعرات کو کہا کہ قومی سلامتی کا کٹر اسٹریٹن منگل کے روز آبنائے تائیوان سے گزرا جہاں بین الاقوامی قانون کے مطابق سمندر میں آمدورفت اور پروازوں کی آزادی ہے۔
آبنائے تائیوان کو سیاسی طور پر حساس سمجھا جاتا ہے جو چین کو جمہوری طرز حکومت والے جزیرے تائیوان سے الگ کرتی ہے۔اس حوالے سے بار بار کشیدگی پیدا ہوتی ہے کیونکہ بیجنگ آبنائے تائیوان کے ذریعے تائی پے پر اپنا سیاسی اور فوجی دباؤ بڑھاتا ہے تاکہ اسے چینی خودمختاری قبول کرنے کے لیے مجبور کیا جائے۔ساتویں بحری بیڑے نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’’اسٹریٹن کی آبنائے تائیوان کے ذریعے آمدورفت ایک آزاد اور کھلے ہندبحرالکاہل کے لیے امریکہ کے عزم کو ظاہر کرتی ہے۔
چین کے ساحلی محافظوں کے ایک ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ چینی جہازوں نے امریکی بحری جہاز کا پیچھا کیا ۔ترجمان نے مزید کہا کہ چین اپنی خودمختاری اور سلامتی اور سمندری حقوق اور مفادات کا ’بھرپور‘ تحفظ کرے گا۔
تائیوان کی فوج آبنائے تائیوان میں چینی دراندازی کی تقریباً روزانہ اطلاع دیتی ہے۔ ان میں زیادہ تر جنگی طیارے شامل ہیں جو آبی گزرگاہ کی اس مقررہ حد کو عبور کرتے ہیں، جو کبھی فریقین کے درمیان غیر سرکاری بیرئیر کا کام کرتی تھی۔ تائیوان نے بدھ کے روزبتایا ہے کہ چینی جنگی جہاز طیارہ بردار بحری جہاز شانڈونگ کی قیادت میں آبنائے تائیوان سے گزرے ہیں ۔
اس خبر کی کچھ تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں ۔