یمن میں جاری بحران کے حل کے لیے علاقائی ممالک اور یمن کے عالمی حلیفوں کی طرف سے کوششوں میں تیزی آئی ہے۔
یمن میں مخالف دھڑے ملک میں مزید علاقوں پر قبضے کے لیے لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ اس بحران کے حل کے لیے سیاسی حل کی تلاش بھی جاری ہے۔
یمن میں امریکہ کے سفیر میتھیو ٹیولر نے پیر کو کہا کہ وہ ’’نسبتاً پُر امید‘‘ کہ عالمی طور تسلیم شدہ صدر عبد ربه منصور ہادی کی حکومت اور حوثی باغیوں، جنہوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر رکھا ہے، کے درمیان شراکتِ اقتدار کا کوئی معاہدہ طے پا سکتا ہے۔ انہوں نے خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں جلد فیصلے کرنے ہوں گے۔
میتھیو ٹیولر نے کہا کہ ’’اگر صدر ہادی باغیوں کے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں اور عدن پر باغیوں کا قبضہ ہو جاتا ہے تو سیاسی مکالمہ مؤثر نہیں ہو گا۔ ایسا بہت جلد ہو سکتا ہے۔‘‘
صدر ہادی نے جنوب میں واقع عدن شہر میں پناہ لے رکھی ہے جہاں وہ گزشتہ ماہ صنعا میں نظر بندی سے فرار کے بعد اپنی عملداری قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عدن میں صدر ہادی کی وفادار فوج اور سابق رہنما علی عبداللہ صالح کے حامی لشکروں اور حوثی باغیوں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔
سکیورٹی اور ملیشیا ذرائع کا کہنا ہے کہ ہادی کے حامی فوجیوں نے پیر کو درجنوں حوثی باغیوں کو مار بھگایا جنہیں عدن کی جانب بھیجا گیا تھا۔
دیریں اثنا سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ سعود الفیصل نے کہا ہے کہ اگر اس مسئلے کا پُر امن حل تلاش نہ کیا جا سکا تو عرب ممالک حوثی باغیوں کے خلاف ’’ضروری اقدامات‘‘ اٹھائیں گے۔ انہوں نے یمن میں ’’ایرانی مداخلت‘‘ کی مذمت کی۔
شعیہ حوثی باغیوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ایران ان کو مدد فراہم کر رہا ہے، لیکن ایران کی جانب سے اس کی تردید کی جاری رہی ہے۔
یمن کے وزیرِ خارجہ رائد یاسین کے مطابق صدر ہادی نے ہمسایہ خلیجی عرب ممالک سے درخواست کی ہے کہ وہ حوثی باغیوں کے خلاف فوجی مداخلت کریں۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ فوجی مداخلت کے خدوخال کیا ہوں گے، تاہم اس بات پر زور دیا کہ حوثی باغیوں کو روکا جانا چاہیئے ۔
یمن کی ابتر ہوتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظر عالمی حلیفوں نے وہاں سے اپنا فوجی اور سفارتی عملہ واپس بلا لیا ہے۔ امریکہ نے بھی ہفتے کو اپنا عملہ واپس بلا لیا ہے۔