یمن کے وزیرِ دفاع جنرل محمود الصبیحی دارالحکومت صنعا پر قابض حوثی باغیوں سے بچ کر جنوبی ساحلی شہر عدن پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
جنرل محمود اتوار کو صنعا سے نکلنے کے بعد عدن پہنچے جہاں یمن کے صدر عبدالرب منصور ہادی پہلے سے مقیم ہیں۔
صدر ہادی اور ان کی کابینہ کے ارکان نے صنعا پر قابض شیعہ باغیوں کے دباؤ پر جنوری میں استعفے دے دیے تھے جس کے بعد باغیوں نے انہیں ان کی رہائش گاہوں پر نظر بند کر رکھا تھا۔
لیکن صدر ہادی گزشتہ ماہ باغیوں کے قبضے سے فرار ہونے کے بعد عدن پہنچ گئے تھے جسے انہوں نے اپنا عارضی دارالحکومت قرار دے دیا ہے۔
صدر ہادی نے عدن پہنچنے کے بعد اپنا استعفی واپس لے لیا تھا اور خود کو یمن کا قانونی حکمران قرار دیتے ہوئے صنعا کو حوثی باغیوں سے خالی کرانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
یمنی حکومت کے وزیرِاعظم اور کابینہ کے کئی سینئر ارکان تاحال حوثی باغیوں کے زیرِ نگرانی صنعا میں نظر بند ہیں۔ لیکن وزیرِ دفاع کے عدن پہنچنے کے بعد امید ہے کہ صدر ہادی کو عدن میں اپنی حکومت مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔
خلیج کی تمام عرب ریاستیں اور امریکہ سمیت بیشتر مغربی ملک صدر ہادی کو یمن کا قانونی حکمران قرار دیتے ہیں اور دارالحکومت پر باغیوں کے قبضے کی مذمت کرچکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ بھی صدر ہادی کو یمن کا صدر تسلیم کرتی ہے۔
حوثی باغیوں کی جانب سے حکومتی مراکز پر قبضے کے بعد امریکہ سمیت کئی یورپی ملکوں نے صنعا میں اپنے سفارت خانے بند کردیے تھے۔
لیکن سفارت خانے کی بندش کے باوجود امریکہ کے سفیر میتھیو ٹیولر نے گزشتہ ہفتے صدر ہادی کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے عدن میں ان سے ملاقات کی تھی۔
سنہ 1990ء میں شمالی اور جنوبی یمن کے اتحاد سے قبل عدن جنوبی یمن کا دارالحکومت تھا۔ جنوبی یمن کے بیشتر سیاسی رہنما اور عوام صنعا پر حوثی باغیوں کے قبضے کو مسترد کرچکےہیں اور انہوں نے اس قبضے کے خلاف جدوجہد کا عندیہ بھی دیا ہے۔
حوثی باغی گزشتہ سال ستمبر سے دارالحکومت کے اہم مقامات پر قابض ہیں اور انہوں نے حکومت میں زیادہ اختیارات دینے کے مطالبے سے اپنی تحریک کا آغاز کیا تھا۔
گزشتہ ماہ کے اوائل میں باغیوں نے پارلیمان کو تحلیل کرنے کے بعد حکومت کا انتظام بھی سنبھال لیا تھا جس کے خلاف یمن کے کئی علاقوں میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔