شیعہ حوثی باغیوں کے حامی ہزاروں یمنی مظاہرین نے ہفتے کے روز زیر کنٹرول دارالحکومت، صنعا میں مارچ کیا، جس کا مقصد متنازع نئی انتظامی کونسل کی حمایت کا اظہار کرنا تھا، جس کی اقوام متحدہ اور متعدد مغربی ممالک پہلے ہی مخالفت کر چکے ہیں۔
منتظمین نے اِس ریلی کو سابق صدر علی عبداللہ صالح کی حمایت سے تعبیر کیا تھا، جو شیعہ رہنما ہیں جنھیں 2012ء میں اقتدار سے ہٹایا گیا تھا، جس سے قبل اُنھوں نے تین سے زائد دہائیوں سے ملک پر حکمرانی کی تھی۔
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ جب مارچ جاری تھا امریکہ قیادت والے سعودی اتحاد کے لڑاکا طیارے پرواز کرتے رہے، جو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ صدر ابو ربو منصور ہادی کی حکومت کا حامی ہے۔ لڑاکا طیاروں نے قریبی صدارتی محل اور دیگر اہداف کو نشانہ بنایا۔ فوری طور پر ہلاکتوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔
ہفتے کے روز ہونے والےفضائی حملوں سے قبل سعودی سرحد کے قریب ایک یمنی اسپتال کو نشانہ بنایا گیا، جس میں کم از کم 14 افراد ہلاک ہوئے، جن میں چندے پر چلائی جانے والی طبی تنصیب، ’ڈکٹرز وداؤٹ بارڈرز‘ میں کام کرنے والے رضاکار معالج بھی شامل تھے۔
گذشتہ ہفتے اِسی علاقے پر سعودی فضائی حملوں میں کم از کم 19 افراد ہلاک ہوئے، جن میں حکام کے مطابق زیادہ تر ہیدان کے اسکول کے بچے تھے۔
شہری آبادی کی ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر اظہار تشویش کرتے ہوئے، امریکی فوج نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ اُس نے سعودی اتحاد کے لیے امریکی مشیروں کی تعداد کم کردی ہے۔
بحرین میں ایک امریکی فوجی ترجمان نے اخباری نمائندوں کو بتایا ہے کہ امریکی دستے کو 45 میں سے کم کرکے پانچ سے بھی کم کر دیا گیا ہے۔ پینٹاگان کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ امریکی تعاون ’بلینک چیک کے مترادف نہیں ہے‘‘۔
یمن کی لڑائی میں ہادی اور اُن کے سعودی اتحادی ایرانی پشت پناہی والے حوثیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، جنھوں نے سنہ 2014 میں صنعا کا کنٹرول سنبھالا، جس سے پہلے کئی سالوں تک سرکاری متیاز کا دعویٰ کیا جاتا رہا۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 6500 سے زائد افراد، جن میں سے نصف تعداد شہریوں کی ہے، تنازعے میں ہلاک ہوئے۔