ایک طویل عرصے کے انتظار کے بعد، یمن کے صدر علی عبد اللہ صالح اور مخالفین راہنماؤں نے بدھ کے روز ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت وہ ملک کے نائب صدر عبد رَبو منصور حادی کو اقتدار منتقل کریں گے اور وقت سے قبل صدارتی انتخابات کرائے جائیں گے۔
اِس معاہدے پر مسٹر صالح اور اپوزیشن نےسعودی عرب میں ہونے والی ایک تقریب میں دستخط کیے۔
سعودی فرمانرواعبداللہ نے کہا کہ آج یمن کی تاریخ کا ایک نیا ورق پلٹا گیا ہے۔ اُنھوں نے یمنی سیاستدانوں پر زور دیا کہ وہ اپنے شورش زدہ ملک میں امن لانےکے لیے کام کریں۔
مسٹر صالح نے کہا کہ اُن کی حکومت اس ساجھےداری کا خیرمقدم کرتی ہے، جس کا مقصد، اُن کے بقول، حزبِ مخالف کے اپنے بھائیوں کےساتھ مل کر یمن کی تعمیر ِ نوکرنا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اُنھیں اس بات کا افسوس ہے کہ 10ماہ سے جاری بغاوت جس کا مقصد اُنھیں اقتدار سے الگ کرنا تھا ، اُس میں خونریزی واقع ہوئی۔ تاہم، اُنھوں نےدعویٰ کیا کہ اِس شورش کو بیرونی طاقتوں کی مدد حاصل تھی، جو اُن کے بقول، عرب دنیا میں اپنا ذاتی ایجنڈا رائج کرنے کی تگ و دو کر رہی ہیں۔
یہ معاہدہ خلیج تعاون تنظیم کے لیے ایک فتح کا درجہ رکھتا ہے، جس نے ہی اِس کا مسودہ تیار کیا اور تحمل کے ساتھ اِسےمنوایا۔
تنظیم کے سکریٹری جنرل عبد اللطیف زایانی نے معاہدے پر دستخط کو تاریخی قرر دیا۔ تاہم، معاہدے سے یمن میں جاری حکومت مخالف احتجاجی مظاہرین مطمئن نظر نہیں آتے۔
دستاویز پر دستخط ہونے کے بعد، مظاہرین دارالحکومت صنعا میں اکٹھے ہوئے جہاں اُنھوں نے معاہدے کی رو سےمسٹر صالح کے خلاف مقدمہ چلانے سے استثنیٰ پر اپنی برہمی کا اظہار کیا۔ اور یہ کہ، کچھ مظاہرین نے اُن کے فوری طور پر اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے بدھ کو کہا کہ دستخط کی تقریب کے بعد مسٹر صالح نیو یارک جانے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں وہ اپنا علاج جاری رکھ سکیں ۔ جون میں صدارتی احاطے میں ہونے والے ایک بم حملے کے دوران اُنھیں زخم آئے تھے۔