اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے کہا ہے کہ اسے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق یمنی سکیورٹی فورسز کی جانب سے شہر تعز میں گزشتہ دو روز سے جاری کارروائیوں میں اب تک 50 حکومت مخالف مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں۔
عالمی تنظیم کی انسانی حقوق کی کمشنر ناوی پِلے نے منگل کے روز اپنے ایک بیان میں یمن کے صدر علی عبداللہ صالح کی حکومت کی جانب سے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ”قابل ملامت“ قرار دیا۔
اُنھوں نے یمنی حکومت پر زوردیا کہ وہ اپنے شہریوں کے انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔
ناوی پِلے نے سکیورٹی فورسز کو تعز کے ایک اسپتال پر قبضہ اور مظاہرین کے احتجاجی کیمپ کے نزدیک قائم ایک عارضی شفا خانے کو تباہ کرنے پربھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اُن کا کہنا تھا کہ سرکاری فورسز کو طبی عملے اور تنصیبات کو کسی صورت میں بھی نشانہ نہیں بناناچاہیئے۔
دریں اثناء تعز میں لڑائی جاری ہے جبکہ دارالحکومت صنعا میں بھی مسلح جھڑپوں کا سلسلہ منگل کو ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قبائلی جنگجوؤں اور سرکاری فورسز کے درمیان عارضی جنگ بندی دیرپا ثابت نہیں ہوسکی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے کہا ہے کہ اسے ملنے والی اطلاعات کے مطابق یمن کے جنوبی ساحلی شہر زنجبار میں بھی صورتِ حال انتہائی خراب ہے۔
گزشتہ ہفتے مسلح مسلم شدت پسندوں کے ایک گروپ نے شہر پر قصبہ کرلیا تھا جسے ختم کرنے کے لیے سرکاری فورسز کی جانب سے شہر کے کئی مقامات پر فضائی حملے بھی کیے گئے ہیں۔ عالمی ادارے کے مطابق علاقے میں جاری لڑائی کے دوران اب تک چار فوجیوں سمیت 30 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
اس سے قبل پیر کے روز یمنی سکیورٹی فورسز نے شہر تعز میں 20 سے زائد حکومت مخالف مظاہرین کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔ ریپبلیکن گارڈز کے دستوں اور سادہ لباس میں ملبوس مسلح اہلکاروں نے، جنہیں ٹینکوں کی مدد بھی حاصل تھی، شہر کے مرکزی چوک میں گزشتہ کئی ہفتوں سے جمع احتجاجی مظاہرین پر دھاوا بول دیا تھا۔
عینی شاہدین کے بقول سکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین پر براہِ راست گولیاں چلائیں، ان کے خیموں کو آگ لگادی اور وہاں قائم ایک عارضی شفا خانے کو نقصان پہنچایا۔
صنعاء میں واقع امریکی سفارتخانے نے تعز میں کی جانے والی کارروائی کو سکیورٹی فورسز کی جانب سے ”نوجوان مظاہرین پر بلا اشتعال اور ناقابلِ قبول حملہ“ قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی ہے۔