یمن میں خوفناک خانہ جنگی کو پانچ سال مکمل ہو گئے ہیں۔ جزیرہ نما عرب کی پٹی پر واقع اس غریب ترین ملک میں دنیا کا بدترین بحران پیدا کر دیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، اس خانہ جنگی میں ایک لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
یمن میں متحارب فریقین نے اقوام متحدہ کی طرف سے فوری جنگ بندی کے مطالبے کا خیر مقدم کیا ہے۔ لیکن، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے مطالبات سے یمن میں جاری تنازعے کا خاتمہ نہیں ہوگا۔
سعودی قیادت میں قائم اتحاد کی کارروائی کا آغاز پانچ برس پہلے ہوا تھا اور اس اتحاد نے ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملے کئے اور بحری ناکہ بندی کر دی۔
اس ساری کارروائی کا مقصد صدر عابد ربو منصور ہادی کی قیادت میں یمن کی برطرف حکومت کو بحال کرنا تھا۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے تنازعے میں ملوث فریقین کو نہ صرف شہریوں کے خلاف انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں بلکہ جنگی جرائم کا بھی مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
یمن کے لئے ایک برطانوی ماہر ہیلن لیکنر نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہےکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اس تنازعے کے خاتمے کا کوئی حل نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں تک یمنی پالیسی سازوں کا تعلق ہے وہ لڑائی کو ہوا دے رہے ہیں۔ میرے نزدیک تو وہ وحشی ہیں، کیونکہ وہ جنگ جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور انہیں ان لاکھوں افراد کی کوئی پرواہ نہیں جنہیں مسائل کا سامنا ہے۔ یہ صورتحال انتہائی مایوس کن ہے۔
ہیلن لیکنر کا کہنا ہے کہ 2019 کے آخر میں ایسا لگتا تھا کہ جنگ ختم ہونے والی ہے۔ لیکن، دو بڑے سمجھوتوں پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ اقوام متحدہ کی ثالثی میں طے پانے والے سٹاک ہوم سمجھوتے کے تحت حدائیبہ بندرگاہ پر اتحاد کی کارروائی کو روکنا مقصود تھا، جبکہ ریاض میں ہونے والے سمجھوتے کا مقصد ہادی حکومت اور متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے درمیان جاری بحران کا حل تلاش کرنا تھا۔
’پولیٹیکٹ‘ ادارے کے سینئر ریسرچر اور چیف ایگزیکٹو، عارف انصار نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’’دنیا میں ایسی جگہیں بہت کم ہیں جہاں جانا تو آسان ہے، لیکن وہاں سے واپسی اتنی آسان نہیں ہوتی۔ اور تاریخ نے افغانستان اور یمن کو ایسے ہی مقامات میں شامل کر دیا ہے''۔
بقول ان کے، ''عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے بیرونی قوتیں ان کی طرف متوجہ ہوتی ہیں۔ لیکن، اس کے نتیجے میں جب طاقت کا توازن بگڑتا ہے تو پھر ان مقامات اور ممالک میں استحکام بحال کرنا بے حد دشوار ہو جاتا ہے۔‘‘
عارف انصار نے یمن کے معاملے پر بیرونی عوامل اور پراکسیز کا ذکر بھی کیا۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت یمن کی صورتحال ایران اور سعودی عرب کے درمیان جاری کشمکش سے جڑی ہوئی ہے۔ اور، بقول ان کے، ''اس کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی کے خلاف جاری جدوجہد اور عالمی طاقتوں کے مابین جاری چپقلشیں بھی اس لڑائی کو ہوا دے رہی ہیں۔ یمن کے عام شہریوں کو ان حالات کی قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔‘‘
فلاحی تنظیم ’سیو دی چلڈرن' کے مطابق، یہ امکان ہے کہ 2015 سے لے کر 2018 کے درمیانی عرصے میں پچاسی ہزار بچے خوراک کی کمی کی وجہ سے موت کے منہہ میں جا چکے ہیں اور 24 ملین کی آبادی میں تقریباً اسی فیصد کو اپنی بقا کے لئے خوراک اور فلاحی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
عارف انصار کے مطابق، ممکن ہے کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال یمن میں متحارب فریقوں کو اپنے مقاصد پر نظرثانی کے لئے مجبور کرے۔
برطانوی تجزیہ کار ہیلن لیکنر کا کہنا ہے کہ اس سال جنوری سے لڑائی میں شدت پیدا ہو گئی ہے۔ ریاض سمجھوتے کا مکمل خاتمہ ہو گیا ہے، کیونکہ جنوب کے ساتھ صورتحال پھر سے دگرگوں ہوگئی اور باقی ملک کے اندر حوثی باغیوں نے ایک بڑی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ اس کے نتیجے میں صوبہ معارب کو خطرہ لاحق ہوا ہے جسے استحکام کا ٹھکانہ قرار دیا جاتا تھا۔
خلیجی علاقے سے خارجہ تعلقات کی یورپین کونسل کی تجزیہ کار سنزیا بیانکو نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب مذاکرات بغیر کسی نتیجے پر پہنچے ختم ہو گئے تو مخاصمت کا دوبارہ آغاز ہو گیا اور پھر اس میں شدت پیدا ہو گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی توقع یہ ہے کہ اگر حوثی معارب صوبے میں اپنی کارروائی کو بڑھانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو صورتحال مزید بگڑ جائیگی۔
ان کا کہنا ہے کہ حوثی پہلے بھی یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ ایران کی پشت پناہی کے بغیر بھی لڑائی میں شدت پیدا کرنے کے اہل ہیں۔ ایران اس وقت ملک میں کرونا وائرس پر قابو پانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے۔