برفانی انسان پر سائنسی تحقیق

سائنس دان ان دنوں اس انسان نما افسانوی مخلوق پر تحقیق کررہے ہیں جو نیپال اور ہمالیہ کے علاقوں میں یٹی یا برفانی آدمی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سائنس دانوں نے کہاہے کہ اگر کسی کے پاس اس مخلوق کی حقیقتا موجودگی سے متعلق کوئی ثبوت ہوتو وہ انہیں ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے فراہم کریں۔

برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی اور سوئٹزرلینڈ کے لوسین میوزیم آف زولوجی کے ماہرین یٹی پر تحقیق کے لیے کولیکٹرل ہومینائیڈ پراجیکٹ شروع کیا ہے۔ہومینائیڈ بڑی نسل کے بندروں کی اس مخصوص نسل کو کہا جاتا ہے جن کے بارے میں بعض ماہرین کا خیال ہے کہ وہ انسان کی ابتدائی شکل تھی یا انسان نما کوئی مخلوق تھی۔

افسانوی مخلوق یٹی کے بارے میں، جسے برفانی انسان بھی کہاجاتا ہے، خیال ہے کہ اس کا وطن تبت اور نیپال کا وہ علاقہ ہے جہاں بلندو بالا پہاڑی سلسلہ ہمالیہ واقع ہے۔

یٹی کے بارے میں یہ تصور عام ہے کہ اس کا قد دو سے ڈھائی میٹر کے درمیان ہے۔ شکل انسان نمابندوں جیسی ہے اور پورا جسم بڑے بڑے بالوں سے ڈھکا ہواہے۔

یٹی تبتی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے جادوائی مخلوق۔

برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ کے سائنس دانوں نے ، ان لوگوں اور تنظیموں سے کہا ہے، جویہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یٹی کرہ ارض پر اپنا وجود رکھتا ہے، ثبوت کے طورپر اس کے جسم سے تعلق رکھنے والی کوئی چیز انہیں دیں تاکہ اس پر سائنسی تجربات کرسکیں۔

سائنس دانوں کا کہناہے کہ بالخصوص بالوں کے نمونے سائنسی تجربات کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔

سائنس دانوں کا منصوبہ یہ ہے کہ یٹی کے بال یا کوئی اور جسم کا کوئی اور حصہ ملنے کے بعد وہ اسے ڈی این اے کے ایک نئی طرح کے تجربات سے گذاریں گےجس کے نتائج بہت واضح اور ان کے درست ہونے کی شرح بہت زیادہ ہے۔

سائنس دانوں کا کہناہے کہ ممکن ہے کہ انہیں افسانوی مخلوق یٹی کی باقیات تو نہ مل سکیں لیکن بعض ایسے نایاب انسان نما بندروں کے نمونے ضرور مل جائیں گے جس سے انسان کے ارتقائی مراحل کے بارے میں جاننے میں مدد مل سکے گی۔