زیادہ تر نوجوان سائنسی شعبوں میں ہی اپنے کیریئر بنانے کے خواہاں : طالب علموں کی رائے

میگن پرکنس

ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس انجیلس میں ہونے والے سائنس میلے میں دنیا بھر سے آئے ہوئے 1500سے زائد سائنس دانوں نے شرکت کی

آج ہم آپ کو امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس انجیلس لے جارہے ہیں جہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے 1500سے زائد سائنس دانوں نے سائنسی میلے میں شرکت کی۔

یہ میلہ 8سے 13مئی تک جاری رہا۔ انٹیل انٹرنیشنل سائنس اور انجنیئرنگ فیئر نے 40لاکھ ڈالر کے انعامات اور وظائف بھی اِس میلے کےلیے مختص کر رکھے تھے۔

سولہ سالہ، یدان سخوف نے ایک چھوٹے روبوٹ کی نمائش کی جسے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں استعمال کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔روس کے یورل پہاڑی علاقے سے آنے والے اِس طالبِ علم کا کہنا ہے کہ اِس سےبموں کو ناکارہ بنانے اور دھماکہ خیز مواد کا پتا لگانے والے عملے کو مدد مل سکتی ہے۔

سخوف کہتے ہیں کہ یہ ماڈل گاڑی کے نیچے جا سکتا ہے اور بموں اور بارودی سرنگوں کو تلاش کرسکتا ہے اور پھر اُن کو ناکارہ بنانے والا عملہ اِن پر کام کرسکتا ہے۔

پینسٹھ ملکوں سے طالب علم اور مشیر، ماحولیاتی سائنس، ادویات، کیمسٹری اور کئی دوسرے شعبوں میں اپنی ایجادات کی نمائش کرنے کے لیے میلے میں شامل تھے۔

چین سے آنے والے ایک طالبِ علم باؤ یانگ فین نے اسکیٹ بوٹس کے لیے ایک ٹریکنگ ڈوائس تیار کی جو استعمال کرنے والوں کو اسکیٹ بورڈنگ ٹیکنیک کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت دیتی ہے۔بوٹ کی نچلی سطح پر ایک چھوٹا سا کمپیوٹر نصب کردیا گیا ہے جو حرکت اور سمت کا خیال رکھتا ہے۔اِ س سے پتا چلتا ہے کہ حرکت کرتے ہوئے کہاں پر میں نے غلطی کی ہے اور اِس کو درست کیسے کیا جاسکتا ہے۔

ہانگ کانگ نیو جنریشن سائنس انوویشن سینٹر کے ڈائریکٹر جمی وانگ بتاتے ہیں کہ ہانگ کانگ سے آنے والی ایک ٹیم کئی طرح کی مختلف ایجادات لائی ہے۔

وانگ بتاتے ہیں کہ رنگوں کی پہچان کی صلاحیت سے محروم، یعنی کلر بلائینڈ افراد کے لیے ایک ایسا آلہ تیار کیا گیا ہے جو رنگوں کی پہچان کراسکتا ہے۔ ایسی سیفٹی ڈوائس بھی موجود ہیں جو بلیڈ چھونے کی صورت میں بجلی کی فراہمی منقطع کرسکتی ہیں۔

ہانگ کانگ کے طالبِ علم مِک سو نے گھریلو ساختہ بچوں کے کھانوں میں ممکنہ زہریلے اجزا کی سطح کی پیمائش کےلیےبھی ایک کِٹ تیار کردی ہے۔

مِک سو کا کہنا ہے کہ ممکن ہے بعض والدین ایسی سبزیاں استعمال کرلیں جِن میں نائٹریٹ کی سطح بلند ہو اور یوں بچوں کے کھانے میں اِس کی سطح بڑھ جائے اور اِس طرح جب خوراک جسم میں پہنچتی ہے تو ’بلوبیبی سنڈروم‘ کا باعث بن سکتی ہے۔

اِس سال انٹیل اسٹوڈنٹس، سائنسداں بیشتر لڑکیاں تھیں۔

کیلی فورنیا سے جیسیکا رچیری نے ایک ایسی ڈرائیونگ ڈوائس بنائی جو خود ہی رکاوٹوں سے بچ سکتی ہے۔

وسط جنوبی ریاست کینٹکی سے میگن پرکنس نے راکٹوں میں مختلف فیول اور آکسڈئیرز سے مہارت کو جانچا۔ وہ آٹھ برس عمر سے اپنے گھر کے پیچھے مکئی کے کیتھوں میں راکٹوں پر تجربے کرتی آئی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ مڈل اسکول میں جب بھی سائنس میلے میں پراجیکٹ بنانا ہوتا تھا تو فطری بات تھی کہ میرا جھکاؤ راکٹوں کی طرف ہوتا کیونکہ یہ ایک طرح سے خاندانی مشغلہ نہیں رہا۔

میگن کہتی ہیں کہ وہ ایروناٹیکل انجنئیر بننا چاہتی ہیں۔

اِسی طرح، تیونس کی 15سالہ طالبہ مریم طوسی نے اپنے گھر کا ایک مسئلہ دیکھنے کے بعد پانی کی بچت کے لیے ایک یونٹ تیار کیا ہے۔دراصل، اُن کی والدہ نے نلکا کھلا چھوڑ دیا تو اِس طرح پانی ضائع ہوا۔

کوسٹو ریکا سے 15سالہ فرانسیلا روہا نے ایک ایسی ڈوائس تیار کی ہے جو آئینوں کے استعمال سے سورج کی روشنی کو بجلی میں اور گرمی اور دباؤ سے انجن کو چلانے کے لیے کام دیتی ہے۔

فرانسیلا کی طرح دوسرے نوجوانوں کا بھی کہنا ہے کہ سائنس دلچسپ ہے اور وہ بھی سائنسی شعبوں میں ہی اپنے کیریئر بنانے کے خواہاں ہیں۔

آڈیو رپورٹ سنیئے: