امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے تمام افغان فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ بلا تاخیرجتناجلد ممکن ہو سکے بین الافغان مذاکرات شروع کریں۔
نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد کا یہ بیان بین الافغان مذاکرات کے لیے افغانستان کی مذاکراتی ٹیم کی خاتون رکن فوزیہ کوفی پر حال ہی میں ہونے والے حملے کے بعد سامنے آیا ہے ۔
زلمے خلیل زاد نے ایک ٹوئٹ میں افغانستان کی مذاکراتی ٹیم کی رکن فوزیہ کوفی پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس حملے کو ان افراد کی بزدلانہ اور مجرمانہ کارروائی قراردیا ہے جو افغان امن عمل میں تاخیر کر کے اس کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
افغان حکام کے مطابق جمعے کی شام نامعلوم مسلح افراد نے فوزیہ کوفی پر حملہ کرکے انہیں اس وقت زخمی کر دیا جب وہ پروان صوبے کے دارالحکومت سے کابل واپس آ رہی تھیں۔
یاد رہے کہ فوزیہ کوفی افغان پارلیمان کی سابق رکن ہیں اور خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن ہیں۔
فوزیہ پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری کسی بھی گروہ یا شخص نے قبول نہیں کی۔ دوسری طرف طالبان نے اس حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ وہ تمام فریقین جو امن چاہتے ہیں وہ اس حملے کی مذمت کریں بلکہ امن عمل کو تیز کرکے جتنا جلد ممکن ہو سکے بین الافغان مذاکرات شروع کریں۔
رواں سال فروری میں امریکہ اور طالبان میں طے پانے والے معاہدے کے تحت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے بعد بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا۔ اگرچہ اس معاملے میں نمایاں پیش رفت ہو چکی ہے لیکن طالبان کے لگ بھگ 400 قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہونا باقی ہے۔
افغان حکومت نے صدر غنی کی منظوری کے بعد ان 400 قیدیوں میں سے 80 کو رہا کر دیا ہے۔
افغان حکومت سے بعض ممالک نے کہا ہے کہ وہ ان طالبان قیدیوں کو رہا نہ کرے جو مبینہ طور ان کے شہریوں کی ہلاکت میں ملوث رہے ہیں۔
افغان امور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ امریکہ کی یہ پالیسی ہے کہ بین الافغان مذاکرات جلد از جلد شروع ہوں۔ البتہ بین الافغان مذاکرات میں تاخیر کی وجوہات سے بھی وہ آگاہ ہیں۔
رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ بین الافغان مذاکرات سے پہلے قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہونا ضروری ہے۔
ان کے بقول فرانس اور آسٹریلیا نے بعض طالبان قیدیوں کی رہائی کی یہ کہہ کہتے ہوئے مخالفت کی ہے کہ انہوں نے ان کے فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔ دوسری طرف صدر اشرف غنی کہہ چکے ہیں کہ طالبان کے 400 قیدی جنہیں وہ رہا کر رہے ہیں وہ دنیا کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق افغان صدر کے ترجمان صدیق صدیقی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ دو ممالک نے باضابطہ طور چھ یا سات طالبان قیدیوں کی رہائی کے بارے میں تحفظات سے افغان حکومت کو آگاہ کیا ہے۔
طالبان کا تاحال اس بارے میں کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ طالبان کا مؤقف رہا ہے کہ امریکہ طالبان معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات سے پہلے ان کے تمام قیدیوں کی رہائی اس فہرست کے مطابق ہونا ضروری ہے جو وہ افغان حکومت کو فراہم کر چکے ہیں۔
تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول اگر قیدیوں کی رہائی کا معاملہ طے ہو جاتا ہے تو بین الافغان مذاکرات جلد شروع ہو جائیں گے۔
رحیم اللہ یوسف زئی کہتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کی خواہش ہے کہ بین الافغان مذاکرات میں پیش رفت ہو۔
دوسری طرف پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک ٹؤئٹ میں فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ باقی معاملات کے حل کو یقینی بنائیں تاکہ بین الافغان مذاکرات بغیر کسی تاخیر کے جلد شروع ہو سکیں۔
شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ ہماری مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں افغان امن عمل کو کامیابی سے آگے بڑھانے کے لیے نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امن کے لیے یہ ایک تاریخی موقع ہے جس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔