صدرات کا منصب سنبھالنے کے بعد صدر آصف علی زرداری کا چین کا یہ پانچواں دورہ ہوگااور منگل سے شروع ہونے والے اپنے اس چھ روزہ دورے میں صدر زرداری اپنے چینی ہم منصب ہو جن تاؤاور وزیراعظم وین جیاباؤ کے علاوہ صنعت کاروں کے وفود سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ صدرزرداری یہ دورہ ایسے وقت کررہے ہیں جب پاکستان اور چین کے درمیان جاری سویلین جوہری معاہدے پر خدشات کااظہار کیا جارہا ہے۔
چین کے تعاون سے پاکستان میں چشمہ ون کے نام سے ایک جوہری ری ایکٹرقائم ہے جب کہ اس علاقے میں چشمہ ٹو نامی دوسرے ری ایکٹرکی تعمیر بھی آخری مراحل میں ہے۔ اس کے علاوہ توانائی کے شدید بحران پر قابوپانے کے لیے چین نے پاکستان میں دو مزید جوہری ری ایکٹر قائم کرنے کا عزم بھی کر رکھا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے وائس آف امریکہ سے باتیں کرتے ہوئے چین کے ساتھ سویلین جوہری معاہدے پر ظاہر کیے جانے والے خدشات کو رد کرتے ہوئے کہاکہ پرامن جوہری تعاون کا معاہدہ ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی یعنی آئی اے ای اے کے قوانین کے عین مطابق ہے اور اس ضمن میں کسی ملک کی طرف سے تشویش کا کوئی جواز نہیں ۔
پاکستان کے سرکاری ٹی وی کے مطابق چین پاکستان میں 120 مختلف منصوبوں پر کام کر رہاہے جو تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں اور پاکستان میں تقریباً13ہزار چینی کام کر رہے ہیں۔ صدر زرداری چینی قیادت سے ملاقات میں توانائی،تعمیرات،پٹرولیم،بنکاری اور سرمایہ کاری سمیت دیگر شعبوں میں دوطرفہ تعلقات بڑھانے پر بات چیت کریں گے۔ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی شعبے میں بھی قریبی تعاون موجود ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان اور چین کی دوطرفہ تجارت کا حجم جو 2002ء میں دو ارب ڈالر تھا اب سات ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔