صدر زرداری نے ایک انٹرویو میں کہا کہ انتخابات میں اُن کی جماعت کو اکثریت نہیں ملی اس لیے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا ’ہمارا حق نہیں بنے گا۔‘
اسلام آباد —
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کو اکثریت نہیں ملی اس لیے آئندہ پانچ سالہ مدت کے لیے صدارتی انتخابات میں حصہ لینا اُن کا حق نہیں بنتا۔
اتوار کی شب سینیئر صحافیوں کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں صدر زرداری نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں اُن کی جماعت کو اکثریت حاصل تھی۔
’’پہلی دفعہ جب صدارت لی تھی تو پیپلز پارٹی کا حق تھا… پیپلز پارٹی نے مجھے نامزد کیا تو اس دفعہ ہمارا حق نہیں بنے گا کیونکہ ہماری اتنی اکثریت نہیں ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ ستمبر میں اپنی مدت مکمل ہونے کے بعد اگر پیپلز پارٹی نے ضروری سمجھا تو وہ اس کی قیادت کریں گے ورنہ ایک کارکن کی حیثیت سے کام کریں گے۔
گیارہ مئی کے انتخابات کے بعد صدر آصف علی زرداری کا یہ پہلا ٹی وی انٹرویو تھا۔ انتخابات میں اُن کی جماعت کو مرکز میں 40 نشستیں ملیں جب چار صوبوں میں سے صرف صوبہ سندھ ہی میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن سکی۔
اُنھوں نے کہا کہ ستمبر میں عہدہ صدارت کی مدت مکمل ہونے کے بعد وہ اپنی جماعت پیپلز پارٹی کی شکست کی وجوہات بتا سکیں گے۔
ملک میں ڈرون حملوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ اس سلسلے میں اُن کی حکومت کا امریکہ سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔
اُنھوں نے کہا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ ہماری استعداد کتنی ہے ’’ڈرون گرانا تو ٹھیک ہے لیکن اس کے بعد کیا ہو گا۔‘‘
ملک کے داخلی مسائل کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ کوئی بھی تنہا پاکستان کو مشکلات سے نہیں نکال سکتا اور جو بھی حکومت میں آتا ہے اسے یہ ذمہ داری سنبھالنا پڑتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف سے بھی اُن کی بات چیت کی ہے
صدر زرداری نے کہا کہ اگر آئندہ حکومت شدت پسندوں سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو اس سے قبل یہ نشاندہی کر لی جائے کہ کون سیاسی ہے اور کون دہشت گرد کیوں کہ اُن کے بقول دہشت گرد مذاکرات نہیں کیا کرتے۔
اُنھوں نے کہا کہ آنے والی حکومت سیاسی لوگوں سے مذاکرات کر کے اُن کا اثر و رسوخ دہشت گردوں پر استعمال کر سکتی ہے۔
اتوار کی شب سینیئر صحافیوں کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں صدر زرداری نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں اُن کی جماعت کو اکثریت حاصل تھی۔
’’پہلی دفعہ جب صدارت لی تھی تو پیپلز پارٹی کا حق تھا… پیپلز پارٹی نے مجھے نامزد کیا تو اس دفعہ ہمارا حق نہیں بنے گا کیونکہ ہماری اتنی اکثریت نہیں ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ ستمبر میں اپنی مدت مکمل ہونے کے بعد اگر پیپلز پارٹی نے ضروری سمجھا تو وہ اس کی قیادت کریں گے ورنہ ایک کارکن کی حیثیت سے کام کریں گے۔
گیارہ مئی کے انتخابات کے بعد صدر آصف علی زرداری کا یہ پہلا ٹی وی انٹرویو تھا۔ انتخابات میں اُن کی جماعت کو مرکز میں 40 نشستیں ملیں جب چار صوبوں میں سے صرف صوبہ سندھ ہی میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن سکی۔
اُنھوں نے کہا کہ ستمبر میں عہدہ صدارت کی مدت مکمل ہونے کے بعد وہ اپنی جماعت پیپلز پارٹی کی شکست کی وجوہات بتا سکیں گے۔
ملک میں ڈرون حملوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ اس سلسلے میں اُن کی حکومت کا امریکہ سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔
اُنھوں نے کہا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ ہماری استعداد کتنی ہے ’’ڈرون گرانا تو ٹھیک ہے لیکن اس کے بعد کیا ہو گا۔‘‘
ملک کے داخلی مسائل کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ کوئی بھی تنہا پاکستان کو مشکلات سے نہیں نکال سکتا اور جو بھی حکومت میں آتا ہے اسے یہ ذمہ داری سنبھالنا پڑتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف سے بھی اُن کی بات چیت کی ہے
صدر زرداری نے کہا کہ اگر آئندہ حکومت شدت پسندوں سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو اس سے قبل یہ نشاندہی کر لی جائے کہ کون سیاسی ہے اور کون دہشت گرد کیوں کہ اُن کے بقول دہشت گرد مذاکرات نہیں کیا کرتے۔
اُنھوں نے کہا کہ آنے والی حکومت سیاسی لوگوں سے مذاکرات کر کے اُن کا اثر و رسوخ دہشت گردوں پر استعمال کر سکتی ہے۔