قانونی و آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تمام مقدمات میں آصف علی زرداری کی بریت بظاہر یقینی دیکھائی دیتی ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ بد عنوانی سے متعلق زیرِ التواء مقدمات کی بحالی پر اُن کی جماعت پیپلز پارٹی کے اراکین نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
احتساب کی ایک خصوصی عدالت نے آصف زرداری کی مدتِ صدارت مکمل ہونے پر اُنھیں حاصل استثنیٰ کے خاتمے کے بعد قانونی کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے قومی احتساب بیورو (نیب) کے وکیل کو آئندہ ہفتے پیش ہونے کا نوٹس جمعہ کو جاری کیا تھا۔
آصف زرداری کے خلاف مختلف منصوبوں میں مبینہ بد عنوانی اور ذاتی استعمال کے لیے سرکاری وسائل سے پولو گراؤنڈ بنوانے سمیت پانچ ریفرنسز 1990ء کی دہائی میں بنائے گئے تھے۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور ماہر قانون بابر اعوان کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف اور پیپلز پارٹی کی مقتول رہنما بے نظیر بھٹو کے درمیان طے پانے والے میثاق جمہوریت کے تحت اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ سیاسی انتقام نہیں لیا جائے گا۔
اُن کے بقول اس بات کو پہلے ہی تسلیم کیا جا چکا ہے کہ یہ مقدمات سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے تھے، اس لیے انھیں دوبارہ کھولنا کوئی اچھا اقدام نہیں اور وہ بھی ایسے وقت جب ان سے زیادہ اہم مقدمات زیرِ التواء ہیں۔
’’ملک کے اندر اس سے پرانے کیسز بھی پڑے ہوئے ہیں، تو کسی کو سنگل آؤٹ کرنا اچھا فیصلہ نہیں خصوصاً جو خطے کی صورت حال اور پاکستان جس انتشار کا شکار ہے اس میں یہ کوئی اچھا اقدام نہیں ہوگا۔‘‘
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ ان مقدمات میں لگائے گئے الزامات میں ’’کوئی جان نہیں‘‘۔
’’اگر یہ ثابت ہونے والے الزامات ہوتے تو یہ دو مہینوں میں ہو جاتے، میرا ان مقدمات سے سالوں تک واسطہ رہا ... ان مقدمات میں الزامات کے اعتبار سے کوئی جان نہیں ہے، میں نے پڑھے ہوئے ہیں سارے کیسز۔‘‘
سابق وزیر قانون اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر مولا بخش چانڈیو کہتے ہیں کہ ان مقدمات کا سامنا عدالتوں میں ہی کیا جائے گا۔
اُدھر قانونی و آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تمام مقدمات میں آصف علی زرداری کی بریت بظاہر یقینی دیکھائی دیتی ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل امجد اقبال قریشی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جن مقدمات کو بحال کیا گیا ہے اُن میں آصف زرداری شریک ملزم تھے اور حالیہ برسوں میں مرکزی ملزمان ناکافی شواہد کی بنیاد پر بری ہو چکے ہیں۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ کارروائی آگے نہیں چلے گی بلکہ ان ہی بنیادوں پر جن کے تحت مرکزی ملزمان کو بری کیا گیا زرداری صاحب کو بھی بری کر دیا جائے گا۔ یہ محض ضابطہ کی کارروائی ہو گی اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
اُنھوں نے سونے کی درآمد کے لیے لائسنس کے اجراء سے متعلق مقدمے کا خصوصاً ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ باقی افراد کی بریت کے بعد آصف زرداری کے خلاف کارروائی ہو سکے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ رواں ہفتے ہی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان اتفاق کے بعد سابق سیکرٹری داخلہ قمر زمان چودھری کو قومی احتساب بیورو کا نیا چیئرمین بنایا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنماء یہ کہتے آئے ہیں کہ ماضی کی طرح اب کسی کے خلاف بھی سیاسی انتقام کی بنیاد پر مقدمات نہیں بنائے جائیں گے۔
احتساب کی ایک خصوصی عدالت نے آصف زرداری کی مدتِ صدارت مکمل ہونے پر اُنھیں حاصل استثنیٰ کے خاتمے کے بعد قانونی کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے قومی احتساب بیورو (نیب) کے وکیل کو آئندہ ہفتے پیش ہونے کا نوٹس جمعہ کو جاری کیا تھا۔
آصف زرداری کے خلاف مختلف منصوبوں میں مبینہ بد عنوانی اور ذاتی استعمال کے لیے سرکاری وسائل سے پولو گراؤنڈ بنوانے سمیت پانچ ریفرنسز 1990ء کی دہائی میں بنائے گئے تھے۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور ماہر قانون بابر اعوان کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف اور پیپلز پارٹی کی مقتول رہنما بے نظیر بھٹو کے درمیان طے پانے والے میثاق جمہوریت کے تحت اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ سیاسی انتقام نہیں لیا جائے گا۔
اُن کے بقول اس بات کو پہلے ہی تسلیم کیا جا چکا ہے کہ یہ مقدمات سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے تھے، اس لیے انھیں دوبارہ کھولنا کوئی اچھا اقدام نہیں اور وہ بھی ایسے وقت جب ان سے زیادہ اہم مقدمات زیرِ التواء ہیں۔
’’ملک کے اندر اس سے پرانے کیسز بھی پڑے ہوئے ہیں، تو کسی کو سنگل آؤٹ کرنا اچھا فیصلہ نہیں خصوصاً جو خطے کی صورت حال اور پاکستان جس انتشار کا شکار ہے اس میں یہ کوئی اچھا اقدام نہیں ہوگا۔‘‘
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ ان مقدمات میں لگائے گئے الزامات میں ’’کوئی جان نہیں‘‘۔
’’اگر یہ ثابت ہونے والے الزامات ہوتے تو یہ دو مہینوں میں ہو جاتے، میرا ان مقدمات سے سالوں تک واسطہ رہا ... ان مقدمات میں الزامات کے اعتبار سے کوئی جان نہیں ہے، میں نے پڑھے ہوئے ہیں سارے کیسز۔‘‘
سابق وزیر قانون اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر مولا بخش چانڈیو کہتے ہیں کہ ان مقدمات کا سامنا عدالتوں میں ہی کیا جائے گا۔
اُدھر قانونی و آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تمام مقدمات میں آصف علی زرداری کی بریت بظاہر یقینی دیکھائی دیتی ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل امجد اقبال قریشی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جن مقدمات کو بحال کیا گیا ہے اُن میں آصف زرداری شریک ملزم تھے اور حالیہ برسوں میں مرکزی ملزمان ناکافی شواہد کی بنیاد پر بری ہو چکے ہیں۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ کارروائی آگے نہیں چلے گی بلکہ ان ہی بنیادوں پر جن کے تحت مرکزی ملزمان کو بری کیا گیا زرداری صاحب کو بھی بری کر دیا جائے گا۔ یہ محض ضابطہ کی کارروائی ہو گی اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
اُنھوں نے سونے کی درآمد کے لیے لائسنس کے اجراء سے متعلق مقدمے کا خصوصاً ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ باقی افراد کی بریت کے بعد آصف زرداری کے خلاف کارروائی ہو سکے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ رواں ہفتے ہی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان اتفاق کے بعد سابق سیکرٹری داخلہ قمر زمان چودھری کو قومی احتساب بیورو کا نیا چیئرمین بنایا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنماء یہ کہتے آئے ہیں کہ ماضی کی طرح اب کسی کے خلاف بھی سیاسی انتقام کی بنیاد پر مقدمات نہیں بنائے جائیں گے۔