پاکستان میں آرٹ، کلچر اور فلم کے لیے جہاں سابق فوجی جنرل ضیاالحق کے زمانہ حکمرانی کو 'سیاہ باب' کے طور پر یاد کیا جاتا ہے وہیں کچھ لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ 80 کی دہائی پاکستانی ڈرامے اور موسیقی کے لیے سنہری دور کی حیثیت رکھتی ہے؟
پاکستان کی ثقافتی تاریخ پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں ٹی وی، موسیقی اور آرٹ کو مخصوص فلسفے کی ترویج، ظلم کے آگے سر جھکانے اور آمریت کو دوام بخشنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
لیکن کچھ کا خیال ہے کہ ایسا ایک مخصوص انداز کی 'اخلاقی اقدار' کو ترویج دینے کے لیے کیا گیا۔
آمریت کے دور میں آرٹ کے کردار پر سوالات دنیا کے کئی ملکوں میں متعدد بار اٹھائے گئے ہیں۔ 2017 میں نیویارک ٹائمز کے لیے لکھتے ہوئے علم عمرانیات کی ماہر، مصنفہ، شاعرہ اور ویژول آرٹسٹ ایو لوئیز ایونگ نے ہٹلر کے دور کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ فن کار آمریت کے خلاف لڑنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔
ان کے بقول "آرٹ بغاوت کے نئے راستے تلاش کرتا ہے، اشتراک پیدا کرنے والوں کے مابین اتحاد اور سیاسی سوجھ بوجھ پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ آرٹ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہماری زندگی کے علاوہ بھی کچھ اہم ہے۔ بادشاہ کے دربار میں اس کا مذاق اڑانے والے مسخرے کی طرح وہ فنکار جو اگرچہ کمزور سماجی حیثیت رکھتے ہیں، طاقت کے ایوانوں کو نت نئے طریقوں سے للکارتے ہیں جو بصورت دیگر خطرناک یا ناممکن ہوتا ہے۔‘‘
پاکستان کی تاریخ بھی ایسے فن کاروں کے ذکر سے بھری پڑی ہے جنہوں نے آمروں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور ببانگ دہل کہا ’’ظلمت کو ضیا، صر صر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا‘‘۔
اپنے مضمون میں ایو لوئیز ایونگ بتاتی ہیں کہ آمر بھی اس حقیقت سے واقف ہیں، اسی لیے وہ سٹالن سے لے کر چلی کے پنوشے، ہٹلر سے لے کر برازیل کی مثالوں سے واضح کرتی ہیں کہ کیسے آمر سب سے پہلے آرٹ پر حملہ کرتے ہیں۔
لیکن جب پاکستان میں 80 کی دہائی میں پی ٹی وی پر ’ان کہی‘، ’تنہائیاں‘، ’سمندر‘، ’دھوپ کنارے‘ اور ایسے ہی لاتعداد ڈراموں، ملی نغموں، غزل گائیکی، پاپ میوزک، اور دیگر فنون کا ذکر کیا جاتا ہے تو مبصرین کو ایک تضاد نظر آتا ہے کہ ایسا ایک آمر کے دور میں کیونکر ممکن ہوا؟
Your browser doesn’t support HTML5
اس سے مماثل بحثیں اٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی کے زمانے میں بھی کی جا رہی تھیں۔ مصنفین فرانسیسکا بیلانی اور لورا پناشیٹی اپنی کتاب ’آرکیٹیکچر اینڈ دی ناول انڈر دی اٹالین فاشسٹ ریجیم‘ میں لکھتے ہیں کہ مسولینی کے دور میں فاشزم کے معماروں کا یہ خیال تھا کہ فاشسٹ آرٹ کے لیے ضروری ہے کہ وہ عوام میں مقبول اور سماجی طور پر بامعنی ہو۔ لیکن یہ پراپیگنڈا اور کھلم کھلا سیاسی نہ ہو۔
کتاب میں مصنفین لکھتے ہیں کہ فاشزم کے نمایاں ترین دانشور جوسیپ بوتائی اور مسولینی کا خیال تھا کہ اگر آرٹ کو جرمنی اور سوویت طرز پر سیاست کے بالکل تابع کر دیا گیا تو یہ محض پراپیگنڈا بن جائے گا۔ اس سے آرٹ نہ صرف اپنی فطرت سے محروم ہو جائے گا بلکہ ’Regime‘ یعنی آمرانہ (یا authoritarian) نظام حکومت کے مقاصد کو بھی پورا نہیں کر سکے گا۔ کیونکہ اگر آرٹ کو موثر اور قابل یقین، اورخاص طور پر ’سبق آموز‘ بنانا ہے تو اسے اعلیٰ معیار اور جمالیاتی ذوق سے محروم نہیں ہونا چاہئے۔
مصنفین لکھتے ہیں کہ جہاں آمریت میں فن اور فنکار کے مکمل طور پر بااختیار ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وہیں فاشسٹ آمریت میں یہ بڑی حد تک سمجھا جاتا تھا کہ کچھ حد تک اختیار دینا ریاست کے مفاد میں ہوتا ہے۔
پاکستانی ثقافت پر ناقدانہ نظر رکھنے والے صحافی، طنز نگار اور مورخ ندیم فاروق پراچہ نے صدر ضیاالحق کے دور کا تذکرہ کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب آپ پر 'غیر قانونی حکومت'مسلط ہوتی ہے تو آپ تفریح کو ناظرین کو بے حس کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضیا دور میں جو اس قدر کرکٹ سیریز کے میچز دکھائے گئے تھے، ان کے بقول، اس کا مقصد لوگوں کو تفریح مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے گھروں تک محدود کرنا تھا۔ بقول ان کے ’جب میں یہ کہتا ہوں کہ (اس وقت پی ٹی وی کا ڈرامہ لگنے پر) دکانیں بند ہوجاتی تھیں تو یہ حکومت وقت کے لیے بہت اچھا تھا'۔
ان کے مطابق، ضیا الحق کی حکومت اپنے اقدامات کی بدولت عوام میں بہت غیر مقبول تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس کا علاج یہ نکالا گیا کہ ’’جہاں پہلے وی سی آر گھروں کے باہر تھا تو اب گھروں میں دیکھا جانے لگا۔‘‘ بقول ان کے، حکومت کا مقصد یہ تھا کہ عوام کو ’’بالی وڈ کو دیکھنے دو، امیتابھ، دھرمندر کو دیکھنے دو۔ یہ اس میں لگے رہیں گے اور ہم اپنے کاموں میں لگے رہیں گے۔‘‘
صحافی اور دانشور مجیب الرحمٰن شامی جنرل ضیاالحق کے دور میں صحافتی تنظیم کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے جنرل سیکرٹری رہے ہیں۔ ان کے بقول وہ اسی عہدے کی وجہ سے اس دور میں سینسر بورڈ کے رکن بھی رہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس دور میں سینسربورڈ کے کوڈ کو تو تبدیل نہ کیا گیا، لیکن اس کے بورڈ ممبران کو بہت سوچ سمجھ کر بھرتی کیا جاتا تھا۔ بقول ان کے اس میں جہاں بہت ممتاز دانشور تھے، تو ایسے لوگ بھی ہوتے تھے جو ایک خاص قسم کی 'اخلاقی اقدار پر یقین رکھتے ہوں'۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات کئی ثقافتی پروگراموں میں سینسر بورڈ میں بیٹھے نوجوان رکاوٹ بھی ڈال دیتے تھے۔ بقول ان کے ’’سٹیج ڈرامے اور سٹیج شوز میں خلل بھی پڑتا تھا۔‘‘
ضیاالحق کی حکومت کی غیر مقبولیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے معروف ڈرامہ نگار اور مصنفہ نورالہدیٰ شاہ نے بتایا کہ 80 کی دہائی کے اوائل میں جب سندھ میں ایم آر ڈی تحریک چل رہی تھی اور جنرل ضیاالحق کے 'جبری فیصلوں' کی وجہ سے سندھ میں بقول ان کے، 'تلخی تھی'۔ تو ریڈیو پاکستان کے ایک پروگرام میں گلوکارہ عابدہ پروین کو مدعو کیا گیا، جہاں انہوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ نورالہدیٰ شاہ نے ضیا الحق کےادیبوں کو موہ لینے' کے انداز کا نقشہ کھینچتے ہوئے بتایا کہ ضیاالحق نے فوراً آگے کو جھک کر تعریف کرتے ہوئے عابدہ پروین سے کہا کہ وہ ان کے بڑے مداح ہیں۔ اس پر عابدہ پروین نے فورا کہا کہ 'میں آپ کی مداح نہیں ہوں۔ آپ نے ہمارے بھٹو کو مار دیا'۔
SEE ALSO: افغان جنگ کے موضوع پر بننے والی ہالی وڈ کی 10 بڑی فلمیں80 کی دہائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے نورالہدیٰ شاہ نے بتایا کہ اگرچہ پاکستان ٹیلی وژن پر پیش کئے جانے والے ڈرامے فن کے اعتبار سے کمال کے تھے، 'اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اداکاروں کی پرفارمنس ان ڈراموں میں جو سامنے آئی وہ کمال کی تھی، لکھنے والوں نے انہیں اپنے قلم کے پورے حسن کے ساتھ لکھا'۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ 'اس کے پیچھے جو نظریہ چھپا ہوا تھا، وہ یہ تھا کہ یہ دنیا بیکار ہے، کتے کی ہڈی ہے، آپ کو یہاں کچھ کرنا نہیں ہے، یہ روحانیت کا ایک کھیل ہے، ایک ایسی روحانیت جو ایک نشہ ہے، جہاں آپ فقیروں، بابوں کے ساتھ بیٹھیں، اور ان کا تخلیق کیا ہوا فلسفہ سنیں، اور بس اس نشے میں اپنا وقت گزاریں۔ ظلم جو آپ کے سامنے ہو، وہ معاف کر دیں۔ قتل معاف کر دیں، ریاست کا ظلم آپ کی قسمت میں لکھا ہے، اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر اس پر صبر کریں، شکر کریں۔ سماج میں جو غلط روایتیں ہیں، ان روایتوں کے سامنے سر جھکا دیں۔ کیونکہ یہ آپ کی قسمت کا معاملہ ہے'۔
نور الہدیٰ شاہ کے بقول، ضیا الحق نے پاکستان کے ٹی وی ڈرامے پر اپنا نظریہ نافذ کیا اور یہی فلسفہ پاکستانی ڈراموں میں پیش کیا جانے لگا۔
تفریحی پروگراموں کے ذریعے غیر محسوس انداز میں اپنے نظریات عوام تک پہنچانے کے دوسرے طریقوں پر بات کرتے ہوئے ندیم فاروق پراچہ نے بتایا کہ 80 کی دہائی میں ’ان کہی‘ حسینہ معین کا پلے تھا جس کے نشر ہونے پر بازار بند ہو جاتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جہاں خواتین کرداروں کے مغربی لباس پہننے پر پہلے سے ہی پابندی تھی، وہیں اس ڈرامہ کے نشر ہونے کے درمیان میں یہ حکم آگیا کہ مرد کردار بھی ائیندہ شلوار قمیض پہنیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پراچہ کے بقول، ایک ایڈوائس آئی کہ خبرنامہ پڑھنے والی خواتین میک اپ نہیں کر سکتیں، جس پر چند نے بغاوت کر دی۔ ایک اور حکم نامے میں کہا گیا کہ بیڈ روم میں ڈبل بیڈ نہ دکھائے جائیں، بلکہ میاں بیوی کے کرداروں کے الگ الگ بیڈ دکھائے جائیں۔
ندیم فاروق پراچہ نے بتایا کہ ایسے احکام بھی آئے کہ اشتہارات میں خواتین کو 30 فیصد سے زیادہ نہ دکھایا جائے، مزید یہ کہ خواتین کو ببل گم اور آئس کریم کھاتے نہیں دکھا سکتے۔
مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ اس زمانے میں اشتہاروں میں خواتین کا وجود کم سے کم ہو گیا تھا۔ ان کے مطابق اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی۔ 'جنرل ضیاالحق کے دور میں سمجھا جاتا تھا کہ عورت کا معاشی استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ اس کو ایک برائی سمجھا جاتا تھا'۔
مجیب الرحمان شامی اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہ اس زمانے کے پاکستانی ٹی وی ڈرامہ کے ذریعے ایک خاص فلسفے کی ترویج کی جاتی تھی، مجیب الرحمان شامی کے بقول، وہ نہیں سمجھتے کہ ایسی کوئی باقاعدہ سوچ تھی۔ اس زمانے میں نشر ہونے والا مقبول ڈرامہ ’’وارث جاگیرداری نظام کے خلاف تھا، ایسے ہی سماجی جبر کے خلاف ڈرامے بنائے گئے۔ بقول ان کے 'یہ کہنا زیادتی ہوگی، لیکن کسی منصوبہ بندی کے ساتھ ایسا نہیں کیا گیا۔ منصوبہ بندی سے جو کیا گیا، وہ یہی تھا کہ جو اخلاقی اقدار ہیں، انہیں قائم کیا جائے۔'
80 کی دہائی میں پاکستان کی اخلاقی اقدار کون طے کرتا تھا؟، اس سوال کے جواب میں مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ یہ تعریف ہمارا قانون، ہمارا دستور کرتا تھا۔ جس میں لکھا گیا ہے کہ ہمارا طرز عمل کیسا ہونا چاہئے، مرد اور عورت کے نا محرم رشتوں میں تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے کتنا فاصلہ ہونا چاہئے۔ یہ سب باتیں ہم جانتے ہیں اور ہمارے سینسر بورڈ کے قانون میں موجود بھی ہیں، اور اسی پر ہم عمل کر رہے تھے۔
SEE ALSO: دلیپ کمار نے رپورٹر سے کہا، 'ممبئی نہیں مسلمانوں کے گھر جل رہے ہیں'جنرل ضیاالحق کے زمانے میں پاکستانی معاشرے میں ثقافتی اسلامائزیشن کیسے کی گئی؟ اس بارے میں بات کرتے ہوئے مجیب الرحمٰن شامی نے تسلیم کیا کہ اس دور میں فقہی مکاتب فکر کی رائے کو بہت اہمیت دی گئی۔ ان کے بقول،جمہوری پارلیمان میں جب قوانین بنتے ہیں، تو ان میں بحث و مباحثہ کی گنجائش ہوتی ہے، لیکن جب مارشل لا کے دور میں قوانین بننے لگے، تو ایک فقہی تشریح غالب آگئی۔ اور چونکہ 'علما حضرات غالب تھے، تو جو ہماری روائتی مذہبی سوچ تھی، اس کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگیا'۔
مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ ایسا نہیں تھا کہ ضیاالحق کے دور میں حکومت پر تنقید نہ ہوئی ہو۔ ان کے بقول، 'مزاحیہ پروگرام ’ففٹی ففٹی‘ میں انتظامیہ پر ہلکے پھلکے طنزیہ انداز میں تنقید کی جاتی تھی اور ایسا اس لیے ہوتا تھا کہ 'لوگوں کی بھڑاس نکل جائے'۔ البتہ انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ضیا دور کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی ان کے ہدف پر رہتی تھی۔ 'ان کی (پیپلز پارٹی کی)مخالفت بھی زور پکڑ گئی تھی اور ان کے خلاف کارروائیاں بھی ہوئیں'.
ضیا دور میں میڈیا سنسرشپ کے حالات کیسے تھے؟
نورالہدیٰ شاہ نے اپنا ذاتی تجربہ بتاتے ہوئے کہا کہ جب ان سے پی ٹی وی کا مشہور ڈرامہ سیریل 'جنگل' لکھوایا گیا تو انہیں پی ٹی وی بلانے کے لئے جی ایم پی ٹی وی نے ان سے کہا کہ 'میری نوکری کا سوال ہے، ایم ڈی آپ سے ملنا چاہتے ہیں'۔
نور الہدیٰ شاہ کے بقول، 'میں سمجھی کہ سب کی طرح تعریف کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے ایم ڈی پی ٹی وی سے ملاقات کی۔ تو انہوں نے پوچھا، 'جنگل' کی پچھلی قسط میں ایک ڈائیلاگ نشر ہوا ہے کہ دو شیر ایک گھاٹ سے پانی نہیں پی سکتے، اس کا کیا مطلب ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔نور الہدیٰ شاہ کے بقول، میں نے کہا 'میں سمجھی نہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی نہیں پیتے، تو آپ نے یہ کیوں لکھا کہ دو شیر؟'
Your browser doesn’t support HTML5
میں نے کہا 'وہ محاورہ ہے، محاورہ ڈائیلاگ نہیں بن سکتا۔ ڈائیلاگ اس سے مختلف ہوتا ہے'۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا 'کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ بھٹو اور ضیا ایک گھاٹ سے پانی نہیں پی سکتے؟' تو میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ 'ضیا شیر ہے کیا؟'
ندیم فاروق پراچہ 'ففٹی ففٹی' کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنرل ضیاالحق کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھانے والوں میں خواتین کے حقوق کی علمبردار سرگرم کارکنان تھیں۔ بقول ان کے، اس کی وجہ حدود آرڈیننس اور ایسے ہی ’عورت مخالف‘ قوانین کا نفاذ تھا۔ ان کے مطابق ’ففٹی ففٹی‘ میں ایک خاکے میں دکھایا گیا کہ چند عورتیں حقوق حقوق کے پلے کارڈ پکڑے نعرے لگا رہی ہیں۔ سامنے ہی ایک دوکاندار نے اپنی دوکان کھولتے ہوئے سیل کی تختی آویزاں کر دی۔ اس پر وہ خواتین فوراً اپنے حقوق کے پلے کارڈ پھینک کر خریداری میں مصروف ہو گئیں۔
مصنف اور تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ ضیا دور کے ثقافتی ماحول پر بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ 'اس دور میں ثقافتی مراکز بند ہوگئے، اور جو ثقافت نظر آئی، وہ پاکستان کی شہری اشرافیہ کی ثقافت تھی'۔ ان کے بقول، 'پاکستان کو اس کی ضرورت بھی تھی، کیونکہ ہمارا ہندوستان سے مقابلہ تھا'۔ لیکن بقول ان کے 'جو عوامی کلچر تھا اس پر تو ضیاالحق کا زمانہ بہت اثر انداز ہوا'.
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ جب کسی ثقافت میں گفتگو اور گفتگو کی اجازت کو محدود کر دیا جاتا ہے تو اس کے دور رس نتائج ہوتے ہیں۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری تباہ ہو گئی، جو ندیم فاروق پراچہ کے بقول، ضیا دور کے ابتدائی برسوں میں دنیا کی چوتھی بڑی فلم انڈسٹری تھی۔ عائشہ صدیقہ کے بقول، وہ فلمیں جن میں موضوعات پر بات ہوتی تھی، وہاں سنسر کی وجہ سے ماحول تبدیل ہو گیا۔ بڑے بڑے سٹوڈیو بند ہوگئے، اور فلموں میں پدرسری اور آمرانہ تشدد بڑھا۔
'جہاں بہت سی چیزوں کو روکا نہیں گیا، وہیں بہت سی چیزوں کو بدلا گیا'۔ عائشہ صدیقہ کے بقول، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی کی تحریروں کے ذریعے 'مذہب کو آپ کے اندر پرویا گیا۔مذہب کوہم سب مانتے ہیں۔ لیکن مذہب کو جس طرح سمویا گیا، وہ ایک سوال ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
فنکاروں اور ادیبوں پر نوازشات کی ثقافت کے فروغ پر بات کرتے ہوئے عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ 'آپ کا شاعر اور ادیب جذباتی تھا۔ وہ لکھتا تھا تو اپنے عوام کے لیے، ان سے اس کا گہرا تعلق ہوتا تھا۔ ضیا الحق نے نوکری، پلاٹ، گاڑیوں کے پرمٹ دے کر وہ مزاج بدلنا شروع کر دیا'.
عائشہ صدیقہ ایوان صدر میں ادیبوں کو بلانے کے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں، 'مجھے یاد ہے کہ رائٹرز کانفرنس ہونے لگی تھی، سب اکٹھے ہوتے تھے۔ لوگوں کو بلایا جاتا تھا اور ایوان صدر میں کھانا بھی ہوتا اور لوگوں کو بتایا بھی جاتا تھا کہ آپ یہاں آئے ہیں، آپ نے یہاں نمک کھایا ہے اور اس کی روایت تو یہی ہے کہ آپ نمک حلالی کریں۔ یہ بات اپنی آخری تقریب میں انہوں نے کہی بھی تھی'.
نورالہدیٰ شاہ ضیا دور میں فلم، ڈرامہ اور موسیقی کے عروج پر بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ 'یہ عروج ہمیں اس لیے نظر آتا ہے کیونکہ یہ تمام شعبے اپنا عروج حاصل کر چکے تھے۔ یا اپنے عروج کی جانب تیزی سے بڑھ رہے تھے'۔
ڈاکٹر عائشہ نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اس وقت ثقافتی روانی موجود تھی۔ انہوں نے کہا کہ 'ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ضیاالحق خمینی نہیں تھے، ان کا پاکستان خمینی کا ایران نہیں تھا'۔
ندیم فاروق پراچہ کے بقول، ضیاالحق کا اسلام کا نعرہ بھی بھٹو صاحب کی اپوزیشن کے نظام مصطفی کے نعرے سے مستعار تھا۔ بقول ان کے 'یہ ایک ’مکس بیگ‘ آمریت تھی، جس میں مولوی بھی تھے اور صنعت کار بھی تھے، جو سکاچ وہسکی پیتے تھے۔ یہ آمریت اپنے آپ میں ارتقا پذیر ہو رہی تھی'۔
SEE ALSO: پاکستان میں آزادی صحافت کی جدوجہد کو درپیش چیلنجزعائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ 'ایک چیز ہم نہ بھولیں۔ اگر آپ مولانا فضل الرحمان کو بھی پاکستان کا حکمران بنا دیں گے، تو تھوڑی بہت لبرل ازم اور کلچر کو نمائندگی وہ بھی ہونے دیں گے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ کلچر کو آپ روک نہیں سکتے۔ دوسرا یہ کہ پاکستان چونکہ اپنے روزمرہ کے خرچے کے لیے دنیا پر انحصار کرتا ہے تو آپ اپنا یہ امیج ہمیشہ بناکر رکھنا چاہتے ہیں کہ ہم تو ایک کھلا معاشرہ ہیں۔ یا آپ اس طرح کے 'اسلامی' نہیں ہیں جیسا کہ ایران ہے، تاکہ اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو بہتر قرار دینے میں کامیاب ہو جائیں کہ آپ نسبتاً زیادہ لبرل ہیں۔ لیکن جو اس کے دوررس نتائج ہیں، انہیں دیکھنا بہت ضروری ہے کہ آپ کے ملک کا مزاج کیسے بدلا'.
مجیب الرحمٰن شامی بھی اس سوال کے جواب میں پاکستان کے جمہوری پس منظر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے سماج میں جو کھلا پن ہے، یہ ہماری طے شدہ اقدار میں شامل ہے۔
SEE ALSO: بھٹو حکومت کے خلاف تحریک اور بیگم نسیم ولی خان کا 'کالا دوپٹہ'ایک تیسری وجہ بیان کرتے ہوئے ندیم فاروق پراچہ کہتے ہیں کہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ 'ضیا الحق فلم، ٹیلی وژن اور تھیٹر کے بہت بڑے فین تھے۔ پی ٹی وی کے سابق جی ایم برہان الدین حسن نے اپنی کتاب ’’پس پردہ‘‘ میں لکھا کہ ضیا الحق پابندی سے آٹھ سے گیارہ بجے تک پی ٹی وی دیکھتے تھے۔ جس پروگرام پر انہوں نے تبصرہ کرنا ہوتا تھا، وہ اس پروگرام کے پروڈیوسر، ڈائریکٹر یا لکھاری کو بتاتے تھے کہ آپ نے یہ کیا، یہ نہیں کرنا چاہیے تھا، وہ ایک قسم کے نقاد بھی تھے، یہ ان کا اپنا شوق تھا'۔
ندیم فاروق پراچہ، جنرل ضیاالحق کو ایک زیرک 'سیاستدان' قرار دیتے ہیں، جنہیں یہ معلوم ہوگیا تھا کہ 'جب آپ اسلام کا نام لیتے ہیں تو سب کچھ دب جاتا ہے'۔