سیر و تفریح کے لیے لاہور کے شاہی قلعے میں آنے والے اکثر لوگ نہیں جانتے کہ یہاں 20 ہزار سے زائد کتابوں پر مشتمل ایک تاریخی لائبریری بھی ہے۔ لائبریری کے دروازے تو سب کے لیے کھلے ہیں لیکن زیادہ تر مؤرخ اور محققین ہی یہاں استفادہ کرنے آتے ہیں۔ اس لائبریری کی کہانی دیکھیے ثمن خان کی رپورٹ میں۔
سیالکوٹ کے صنعت کاروں کے مطابق شہر کی ترقی کا راز ان کی یک جہتی میں پوشیدہ ہے۔ اسی یک جہتی سے وہ اپنی خامیاں بھی دور کرتے ہیں۔
چلنا ہے تو سیالکوٹ چلیے جہاں سڑکیں، ڈرائی پورٹ، ایئرپورٹ اور ایئرلائن جیسے بڑے منصوبے مقامی صنعت کاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت بنائے ہیں۔ اسپورٹس، سرجیکل، لیدر اور دیگر انڈسٹریز سے تعلق رکھنے والے صنعت کار کاروباری مسابقت کے باوجود سماجی منصوبوں کے لیے کیسے اکٹھے ہوتے ہیں؟ جانیے ثمن خان کی رپورٹ میں۔
کرونا وائرس کی عالمی وبا نے پاکستان میں کروڑوں بچوں کی تعلیم کو متاثر کیا ہے۔ ان میں سے کئی بچے مستقل طور پر اسکول چھوڑ کر مزدوری پر مجبور ہیں۔ یہ بچے شاید اب دوبارہ کبھی اسکول نہیں جا سکیں گے۔ دیکھیے لاہور کی ایک طالبہ فاطمہ نور کی کہانی جس کے خواب کرونا وائرس کی نذر ہو رہے ہیں۔ ثمن خان کی رپورٹ۔
مٹی کا گھڑا آج پانی بھرنے کے لیے بھی کم کم ہی استعمال ہوتا ہے۔ لیکن کسی زمانے میں یہ گھڑا بولتا بھی تھا اور اس سے نکلنے والی موسیقی سماں باندھ دیتی تھی۔ اندرون لاہور میں آج بھی ایک ایسا فن کار ہے جس کی انگلیاں گھڑے پر پڑتے ہی وہ مٹکا سُر بکھیرنے لگتا ہے۔ دیکھیے لاہور سے ثمن خان کی ڈیجیٹل رپورٹ۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کی رُکن ڈاکٹر سیمی بخاری کے مطابق حکومت خصوصی افراد کی ضروریات سے بخوبی واقف ہے۔ اسی لیے خصوصی افراد کی بحالی کے لیے اہم اقدامات کرنے جا رہی ہے۔
لاہور میں کئی سماجی کارکن اور رضا کار جھونپڑیوں اور کچی بستیوں میں رہنے والے بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر بچے سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں۔ کرونا کی وبا سے قبل وہ بہت سے بچوں کو پڑھائی کی طرف لا چکے تھے لیکن عالمی وبا نے ان کی تمام تر محنت پر پانی پھیر دیا ہے۔ تفصیلات ثمن خان کی اس رپورٹ میں
کیا آپ جانتے ہیں کہ درختوں کا طبی معائنہ بھی کیا جاتا ہے اور علاج بھی۔ درختوں کی صحت جانچنے کے لیے ہارٹی کلچرسٹ یعنی ماہرِ باغ بانی کو خاصی مہارت چاہیے ہوتی ہے۔ نئے اور قدیم درختوں کی نگہداشت کے نظام کو سمجھنے کے لیے ثمن خان کے ساتھ باغِ جناح لاہور چلتے ہیں جہاں ایک صدی پُرانے درخت آج بھی موجود ہیں۔
پاکستان میں خواجہ سراؤں کو ناچ، گانے اور مانگنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسی برادری سے تعلق رکھنے والی سونیا ناز نے اس امید کے ساتھ اپنا کاروبار شروع کیا ہے کہ اُنہیں کام کرنے کی نصیحت کرنے والے اُن کی حوصلہ افزائی ضرور کریں گے۔ اُن کی اس کوشش پر لوگوں کا ردِ عمل کیا ہے؟ دیکھیے اس رپورٹ میں
محمد اقبال کو ڈکیتی کے دوران قتل کے الزام میں اُس وقت سزائے موت سنائی گئی جب وہ صرف 16 سال کے تھے۔ لیکن قانون کے باوجود اُن کی رہائی میں تاخیر ہوئی۔
موٹر گلائیڈنگ پاکستان میں متعارف ہونے والا نسبتاً نیا کھیل ہے۔ ایڈونچر کے شوقین اس کھیل کا لطف اٹھانے کے لیے چولستان جیسے دور دراز علاقوں میں جاتے ہیں لیکن وہاں کے مقامی رہائشیوں کے لیے موٹر گلائیڈنگ ایک خواب ہے۔ پاکستان میں موٹر گلائیڈنگ کن علاقوں میں اور کیسے ہو رہی ہے؟ دیکھیے ثمن خان کی رپورٹ میں
لاہور میں گھوڑے شاہ نامی دربار پر لوگ کسی زمانے میں سونے چاندی کے گھوڑوں کے چڑھاوے دیتے تھے۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ مٹی سے بنے گھوڑوں نے ان کی جگہ لے لی جنہیں گھگھو گھوڑے کہا جاتا تھا۔ اب گھگھو گھوڑے ملتے ہیں نہ انہیں بنانے والے فن کار۔ دیکھیے 'متروک پیشوں' پر وی او اے کی سیریز کا نواں حصہ
ہنسی مذاق کرنے والے کو پنجابی معاشرے میں اکثر بھانڈ کا لقب دے دیا جاتا ہے۔ نئی نسل نے یہ اصطلاح تو سنی ہو گی لیکن بھانڈوں سے واسطہ شاید ہی پڑا ہو گا۔ جگت بازی، چرب زبانی اور طنز و مزاح کے لیے مشہور بھانڈوں کا روزگار بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ دیکھیے 'متروک پیشوں' پر وائس آف امریکہ کی سیریز کا تیسرا حصہ
پنجاب کی ثقافت کا ایک رنگ وہ چوڑی فروش بھی تھے جن کی 'ونگاں چڑھا لو کڑیوں' کی آوازیں گلی گلی سُننے کو ملتی تھیں اور جن کی آمد سے لڑکیوں کی سونی کلائیاں رنگ برنگی چوڑیوں سے سج جاتی تھیں۔ لیکن یہ آوازیں لگانے والے اب کہیں غائب ہوگئے ہیں۔ 'متروک پیشوں' پر وائس آف امریکہ کی سیریز کا دوسرا حصہ
لاک ڈاؤن کے باعث رمضان کے آغاز میں سموسوں اور پکوڑوں کے اسٹالز پر پابندی تھی۔ لیکن لوگوں نے فروزن فوڈ کی شکل میں چٹ پٹے پکوان حاصل کرنے کا حل ڈھونڈ نکالا۔ فروزن فوڈ کی طلب میں اضافے کے بعد بہت سے نئے لوگ بھی یہ کاروبار شروع کر چکے ہیں۔ لاہور کے ایک شیف نے یہ روزگار کیوں اپنایا؟ جانیے انہی کی زبانی
"ساری زندگی پاکستان میں گزار دی۔ اپنی محنت کر کے کمایا اور ملک کی معیشت میں بھی حصہ ڈالا۔ لیکن اب کہیں راشن لینے جاؤ تو شناختی کارڈ پر مسیحی لکھا دیکھ کر کہتے ہیں کہ آپ چلے جاؤ، اس میں آپ کا حصہ نہیں۔"
ایک دور تھا جب نانی، دادی کے ہاتھ کے بنے سوئیٹر اور اماں کے ہاتھ کی بنی اونی شال اکثر لوگ پہنے دکھائی دیتے تھے۔ لیکن جدید دور نے رشتوں کے پیار کا یہ احساس دور کر دیا ہے۔ لاہور میں ایک خاتون اس روایتی دست کاری کو نئے انداز میں پیش کر رہی ہیں تاکہ لوگ اس فن کو بھول نہ جائیں۔ دیکھیے ثمن خان کی رپورٹ۔
پاکستان میں اس بار ماہِ رمضان گزشتہ برسوں کی نسبت قدرے مختلف انداز میں گزر رہا ہے۔ افطار پارٹیوں کا اہتمام ہے اور نہ ہی عید کی شاپنگ کے رنگ۔ ایک پاکستانی فیملی سے جانتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران وہ ماہِ صیام کس طرح گزار رہے ہیں؟
مزید لوڈ کریں