Sidra Dar is a multimedia journalist based in Karachi, Pakistan.
پاکستان کا قانون عورت کی زندگی بچانے کے لیے 120 دن کا حمل ضائع کرانے کی اجازت دیتا ہے۔ کئی خواتین قانون میں دی گئی گنجائش کو فیملی پلاننگ کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔
گھوٹکی کی طالبہ نمرتا کماری کی موت قتل تھی یا خودکشی، اس بارے میں پولیس کی تحقیقات جاری ہیں۔ اہلِ خانہ انتظامیہ سے انصاف مانگ رہے ہیں اور علاقہ مکین بے چینی سے پوچھ رہے ہیں کیا اب اپنی لڑکیوں کو پڑھنے کے لیے گھر سے دور ہاسٹل نہ بھیجیں؟ تفصیلات سدرہ ڈار کی اس رپورٹ میں۔
آصفہ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج، لاڑکانہ کی فائنل ایئر کی طالبہ نمرتا کی آخری رسومات ادا کی جاچکیں لیکن ان کی موت تاحال معمہ بنی ہوئی ہے۔ وائس آف امریکہ کی نمائندہ سدرہ ڈار نے گھوٹکی کے علاقے میرپور ماتھیلو میں نمرتا کے والد جے پال سے اس معاملے پر بات چیت کی ہے۔
نمرتا کی والدہ نے کہا کہ میری بیٹی کو باندھا گیا تھا اور اسے بہت تکلیف دی گئی۔ جس نے بھی ہماری بیٹی کے ساتھ یہ ظلم کیا ہے، خدا اس کے ساتھ انصاف ضرور کرے گا۔
گلگت بلتستان سیاحت کے لیے جانا ہو تو قیام کیجیے وہاں کے مہمان نواز گھروں میں۔ ہنزہ کی عزت بی بی سیاحوں کو کم قیمت پر گھر کرائے پر فراہم کر رہی ہیں۔ سیکڑوں مقامی افراد نے اُن کی ویب سائٹ پر اپنے گھر رجسٹرڈ کرا رکھے ہیں جنہیں سیاحوں کو کرائے پر دیا جاتا ہے۔ جو مقامی افراد کے روزگار کا بڑا ذریعہ ہے۔
کراچی کا ساحل شہر کی سستی ترین تفریح گاہ ہے۔ لیکن کچرے کی موجودگی وہاں آنے والوں کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ سمندر میں پھینکا جانے والا سیوریج کا پانی ہو یا ساحل پر پھیلا کچرا، دونوں ہی آبی حیات اور انسانی زندگیوں کے لیے خطرے کا سبب بن رہے ہیں۔
ایبٹ آباد کی نورالعین سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور وہ سلائی کڑھائی جاننے والی ہنرمند خواتین کو روزگار فراہم کر رہی ہیں۔ اُن کی تیار کردہ ایپلی کیشن 'سوئی دھاگہ' کی مدد سے خواتین گھر بیٹھے پیسے کما رہی ہیں۔
اربن فاریسٹ پارک کو کے ایم سی سے پانچ برس کی مدت کے معاہدے پر لیا گیا ہے۔ 2018 میں اس میں باقاعدہ درخت لگانے شروع کیے گئے۔
چوری کے الزام میں بد ترین تشدد کا نشانہ بن کر جان ہارنے والے کراچی کے نوجوان ریحان کے والدین جہاں اپنے بیٹے کی جدائی پر غم سے نڈھال ہیں، وہیں انصاف کے لیے بھاگ دوڑ بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان میں شہریوں کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے واقعات کب تک ہوتے رہیں گے؟
پندرہ سالہ ریحان کو پندرہ اگست کو بہادر آباد کے علاقے میں چوری کے الزام میں اہل علاقہ نے مبینہ طور پر تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
بارہ سالہ احمد کی والدہ کا کہنا ہے کہ کے-الیکٹرک نے وہ تار کھمبے سے بعد میں آ کر کاٹی جو ان کے بیٹے کی موت کا سبب بنی جب کہ علاقہ مکین اس سے قبل اس کی شکایات کر چکے تھے۔
کراچی میں سجنے والے دو روزہ ادبی جشن میں بچوں نے زور و شور سے حصہ لیا۔ اس ادبی میلے میں کتاب اور مطالعے کی اہمیت، موسیقی، قصہ گوئی، پتلی تماشے، پینٹنگ اور فروغِ تعلیم کے لیے گراں قدر خدمات دینے والوں کی یاد میں خصوصی نشستوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔
پاکستان میں خواجہ سرا آج بھی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ معاشرتی رویوں کے سبب بہت سے خواجہ سرا چاہتے ہوئے بھی آگے نہیں بڑھ پاتے۔ لیکن سندھ کے شہر میر پورخاص کے حیدر نے تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود اپنے اور اپنی کمیونٹی کے لیے روزگار کا بہتر ذریعہ تلاش کر لیا ہے۔
آصف کے لیے ڈانس وہ تھا جو فلم میں نظر آتا تھا اور اسی شوق کو پورا کرنے کے لیے وہ اکثر خاندان میں ہونے والی شادی کی تقریبات میں ڈانس کرتے اور خوب داد سمیٹتے۔
بیکنگ یا پروفیشنل کوکنگ کے میدان میں عموماً مردوں کا راج ہے۔ خواتین کا کسی ہوٹل یا ریستوران کے کچن میں کوکنگ کرنا اب بھی کئی لوگوں کے لیے انہونی بات ہے۔ لیکن کراچی کی کنول ایک کیفے میں نہ صرف مردوں کو کام سکھا رہی ہیں بلکہ خود بھی وہاں اپنا ہنر آزما رہی ہیں۔
حال ہی میں سپریم کورٹ کے احکامات پر کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے تجاوزات کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کارروائی میں ایدھی فاؤنڈیشن کے 13 مراکز کو بھی مسمار کر دیا گیا۔ ان میں سے کئی سینٹرز ایسے علاقوں میں واقع تھے جہاں حادثات کی شرح بہت زیادہ ہے۔
بلقیس ایدھی کہتی ہیں کہ ایک دفعہ ڈاکووں نے پہچاننے پر ایدھی صاحب کو لوٹی ہوئی رقم لوٹا دی تھی۔
کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں وہ شروع سے ہی ٹرکوں اور بسوں کو پھول پتیوں اور منفرد نقش و نگار سے مزین کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ گلریز کہتے ہیں کہ اس شوق اور کام نے ان کی زندگی کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔
رنگوں سے عشق بھی کسی کو سب کچھ چھوڑنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ ایسا ہی ہوا پشاور کے نوجوان گلریز آفریدی کے ساتھ جنہوں نے ٹرکوں کو رنگین بنانے کے شوق میں کراچی کو اپنا گھر بنا لیا۔ اب وہ یہ آرٹ اور لوگوں تک بھی منتقل کر رہے ہیں۔
کرکٹ ورلڈ کپ 2019ء کے مانچسٹر میں ہونے والے پاک بھارت میچ میں پاکستان کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی شائقینِ کرکٹ نے بڑی امیدوں اور تیاریوں کے ساتھ میچ دیکھنے کا اہتمام کیا تھا لیکن روایتی حریف سے شکست کے بعد پاکستان ٹیم کے سپورٹرز خاصے مایوس نظر آئے۔
مزید لوڈ کریں