کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) کی جانب سے کرائے گئے ایک ہزار سے زیادہ ووٹروں کے ایگزٹ پول کے مطابق نصف سے بھی کم مسلم ووٹروں نے ہیرس کی حمایت کی۔ CAIR کے حکومتی امور سے متعلق ڈائریکٹر رابرٹ میکاؤ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر مسلم ووٹروں نے تیسرے فریق کے امیدوار یا ٹرمپ کو ووٹ دیا۔
یہ امریکی ریاست نیو جرسی کا دیہی علاقہ ٹی نیک ہے جو اگلے ماہ ہونے والے انتخابات کے اس منظر نامے کی جھلک پیش کر رہا ہے جس کا رجحان پورے ملک میں دکھائی دے رہا ہے۔
ایران کے اسرائیل پر میزائل حملوں کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی مزید بڑھ رہی ہے۔ ان حالات میں بعض تجزیہ کار یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اسرائیل بھی انتہائی شدت سے ایران کے حملوں کا جواب دے سکتا ہے۔
جہاں ایک جانب مسلم ووٹرز غزہ جنگ کو اہم ترین مسئلہ سمجھتے ہیں وہیں امیدواروں سے متعلق ان کی آرا تقسیم ہیں کیوں کہ ایک بڑی تعداد میں یہ ووٹر دونوں بڑی پارٹیوں کے نامزد امیدواروں کے اسرائیل کی حمایت کے مؤقف سے ناراض ہیں اور تھرڈ پارٹی آپشن کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
امریکی تنظیم کے مطابق ایسی تقریریں صرف وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جانب سے ہی سامنے نہیں آ رہیں بلکہ مسلسل تیسری حکومتی میعاد کی خواہش مند بی جے پی کے سرکردہ رہنما بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔
نیلوفر، اشیش اور اغرزئی، گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جنوبی اور وسطی ایشیا سے انے والے تارکیں وطن کی بڑھتی ہوئی لہر کا حصہ ہیں۔ مردم شماری بیورو کےحالیہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں رہنے والے تارکین وطن کی تعداد 2022 میں بڑھ کر 4 کروڑ ساٹھ لاکھ ہوگئی جو 2010 میں 2 کروڑ 90 لاکھ تھی۔
مریکی مردم شماری بیورو کے حال ہی میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال ،2010 اور 2022 کے درمیان، امریکہ میں مقیم جنوبی اور وسطی ایشیا کے تارکین وطن کی آبادی میں لگ بھگ ساٹھ فیصد اضافہ ہوا اور وہ 29 لاکھ ( 2.9 ملین) سے بڑھ کر تقریباً 46 لاکھ( 4.6 ملین) ہو گئی ۔
حکام کے مطابق کینیڈا کے راستے امریکہ داخل ہونے والوں کی تعداد میں حالیہ برسوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس نے شمالی سرحد پر بارڈر فورس کے کام کو بھی بڑھا دیا ہے۔
امریکہ بھر میں مسلمان جہاں رمضان کے مہینے میں روزے اور عبادات کا اہتمام کرتے ہیں وہیں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان خیراتی اداروں کو دل کھول کر عطیات دے رہے ہیں جو غزہ اور دور دراز مقامات پر ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔
فیمیل جینیٹل میٹیلیشن یعنی عورتوں کے ختنہ کی روایت پر زیادہ تر داؤدی بوہرا فرقے میں عمل کیا جاتا ہے۔ یہ اہل تشیع کی اسماعیلی شاخ میں سے ایک فرقہ ہے۔ اس کے دنیا بھر میں دس سے بیس لاکھ کے قریب ماننے والے ہیں۔ سرویز کے مطابق کم از کم اسی فی صد بوہرا لڑکیوں کا مذہبی بنیادوں کی وجہ سے ختنہ کیا جاتا ہے۔