|
عام طور پر امریکہ کے صدر رونالڈ ریگن کو افغان جنگجوؤں کی مدد کر کے سوویت یونین کو شکست دینے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے لیکن دراصل جمی کارٹر کی حکومت نے اس کے لیے راہ ہموار کی تھی۔
صدر کارٹر نے جب اقتدار سنبھالا تو انہیں بہت سے لوگ خارجہ امور سے متعلق ناتجربہ کار سمجھتے تھے لیکن کارٹر نے وائٹ ہاؤس پہنچنے کے بعد سوویت یونین کے افغانستان پر حملے سے مہینوں پہلے افغان جنگجوؤں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
کارٹر کا یہ اقدام ان کے دورِ صدرات کے اہم ترین پہلوؤں کا جائزہ لینے کا دریچہ کھولتا ہے کہ وہ کس طرح بہتر تعلقات کی کوششوں کے ساتھ ساتھ سوویت یونین کے براہ راست مقابلے سے خائف نہیں تھے۔
یونیورسٹی آف ایریزونا میں تاریخ کے پروفیسر ڈیوڈ گبس کہتے ہیں: ’’میرے خیال میں لوگوں کے ذہن میں کارٹر کے انتہائی مذہبی اور بااصول ہونے کا جو امیج ہے وہ بڑی حد تک صدارت سے سبکدوشی کے بعد ان کی سرگرمیوں سے بنا ہے۔ وہیں ان کی شخصیت کا ایک اور رخ ہے جس میں وہ بے رحمی سے مسائل کو حل کرنے والے حکمران کے طور پر نظر آتے ہیں جو جوہری ہتھیار سمیت طاقت کے استعمال کے لیے تیار تھے۔‘‘
کارٹر نے خفیہ امداد کا جو پروگرام شروع کیا وہ بعد میں افغان مزاحمت کی ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوا جس کی وجہ سے 1989 میں بالآخر سوویت یونین کو افغانستان سے انخلا کرنا پڑا۔
ایک بے باکانہ اقدام کرتے ہوئے کارٹر نے دسمبر 1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے سے چھ ماہ قبل ایک خفیہ حکم نامہ جاری کیا جسے ’پریزیڈینشل فائنڈنگ‘ کا کہا جاتا ہے۔ اس حکم نامے کے تحت سی آئی اے کو اجازت دی گئی تھی کہ افغانستان کی سوویت نواز کمیونسٹ حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کو غیر مہلک امداد فراہم کرے۔
کارٹر کا یہ حکم نامہ تقریباً دو دہائیوں تک پوشیدہ رہا اور 1990 کی دہائی میں سابق ڈائریکٹر سی آئی اے رابرٹ گیسٹ اور کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر زبیگنیو برژینسکی کے انکشافات سے یہ معلوم ہوا کہ کس طرح کارٹر حکومت نے سوویت یونین کو اس کے اپنے جال میں پھنسانے کی تیاری کی تھی۔
’افغان ٹریپ‘
اس سلسلے میں برژینسکی کے انکشافات سب سے زیادہ تہلکہ خیز تھے۔ 1998 میں ایک فرانسیسی میگزین سے انٹرویو میں کارٹر کے پولش نژاد اور کمیونسٹ مخالف مشیر برژینسکی نے سوویت یونین کو اشتعال دلانے کی تردید کی تھی تاہم ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس دور کی حکومت نے افغانستان پر سوویت جارحیت کے امکانات کو تقویت دی تھی۔
برژینسکی نے سوویت یونین کی حامی حکومت کے خلاف افغانوں کی مدد کو ’’کمال کا آئیڈیا‘‘ قرار دیا تھا جو ان کے بقول ’’روس کے لیے افغان ٹریپ بنانے میں مؤثر‘‘ ثابت ہوا۔
اگرچہ برژینسکی نے بعد میں انٹرویو کے درست طور پر رپورٹ ہونے پر اعتراض کیا تھا اور دوبارہ ’’افغان ٹریپ‘‘ کا دعویٰ نہیں دہرایا تھا لیکن اس تصور کو کارٹر حکومت کے ناقدین کی جانب سے بہت توجہ ملی جو انہیں سوویت یونین کو افغانستان پر حملے کے لیے اُکسانے کا ذمے دار قرار دیتے تھے جس کے باعث وہاں کئی تنازعات نے جنم لیا۔
کارٹر کے پروگرام کو سوویت یونین کے لیے اشتعال انگیزی قرار دینے والے اسکالرز میں شامل ڈیوڈ گبز کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس تھیوری کا قائل ہونے سے قبل برژینسکی کے انٹرویو کو بہت باریک بینی سے پڑھا۔
گبز نے وی او اے کو بتایا کہ ایک مرتبہ ایک فوجی مشیر نے تاریخ دان جوناتھن ہیسلم کو بتایا تھا کہ جب برژینسکی کو افغانستان پر سوویت حملے کا معلوم ہوا تو انہوں نے ’’فاتحانہ انداز میں مکا ہوا میں لہرایا اور کہا ’وہ جال میں پھنس گئے۔‘‘‘
گبز کے مطابق اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مجاہدین کو مدد فراہم کرنا اصل میں سوویت یونین کو چارہ ڈالنا تھا۔ ان کے بقول یہ بات دو بار کہی گئی ہے اس لیے برژینسکی کا مطلب واضح ہو گیا ہے کہ اس امداد کا کیا مقصد تھا اور یہ بات تو اندر کا آدمی خود بتا رہا ہے۔
'افغان ٹریپ' کی تھیوری کو کئی نمایاں ماہرین نے بھی اپنے تحقیقی کام کا حصہ بنایا ہے تاہم یونی ورسٹی کالج ڈبلن سے تعلق رکھنے والے مؤرخ کونور ٹوبن کا کہنا ہے کہ زیادہ تر نے اس تھیوری کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
ٹوبن کے مطابق اس تھیوری میں مسئلہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے کارٹر حکومت کے افغانستان میں ملوث ہونے کو 21 ویں صدی کے لینز سے دیکھنا ہوتا ہے جو ’’نائن الیون سے پیچھے کی جانب جانے‘‘ کے مترادف ہے۔
انہوں نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس تھیوری کو درست ماننے والوں نے گیٹس کی یادداشتوں، متنازع فرانسیسی انٹرویو اور تفصیل جانے بغیر بعض دیگر سینہ بہ سینہ ملنے والی معلومات پر انحصار کیا ہے اور کئی بیانات کی کسی دوسرے ذریعے سے تصدیق نہیں کی ہے۔
ٹوبن کہتے ہیں کہ حال ہی میں کارٹر دور کی ڈی کلاسیفائی ہونے والی دستاویز کچھ اور ہی کہانی سناتی ہیں۔
انہوں نے کہا، ’’ان دستاویز سے انکشاف ہوتا ہے کہ سوویت یونین کو افغانستان میں پھنسانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور درحقیقت امریکہ کی پالیسیوں نے سوویت جارحیت میں اگر کوئی کردار ادا کیا بھی تو وہ انتہائی معمولی نوعیت کا تھا۔‘‘
غیر مہلک امداد
اس بحث میں یہ بات نظر انداز کردی جاتی ہے کہ کارٹر نے افغانستان میں سوویت یونین کے بڑھتے ہوئے اثر کے جواب میں وہاں امداد کا پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کمیونسٹوں کی بغاوت کے بعد اپریل 1978 میں افغان صدر داؤد کی حکومت کا تختہ الٹ چکا تھا۔ نئی قائم ہونے والی حکومت نے سخت گیر تبدیلیاں شروع کردی تھیں جس کی شدید عوامی مخالفت کی وجہ سے وہاں بغاوت پھوٹ چکی تھی۔
تاریخ دان کونور ٹوبن کے مطابق کارٹر حکومت نے افغانستان میں بدلتے حالات پر ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی اختیار کی۔ لیکن فروری میں جب افغانستان میں امریکہ کے سفیر ایڈولف ڈبز کا اغوا اور بعد میں قتل ہوا تو یہ پالیسی تبدیل کی گئی۔ برژینسکی نے اس کے بعد افغانستان کے لیے نئے منصوبے کا اعلان کیا۔
ٹوبن کے مطابق انہوں نے اپنے مشیروں سے پوچھا تھا کہ امریکہ کو افغانستان میں بغاوت کرنے والوں میں سے کسی کی مدد کرنی چاہیے؟ اور کس کے ساتھ کام کرنا چاہیے؟
اپنے مضمون ’دی متھ آف دی افغان ٹریپ‘ میں ٹوبن لکھتے ہیں کہ مغربی افغانستان کے شہر ہرات میں بغاوت کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے امریکہ کی پالیسی تبدیل ہونا شروع ہوئی اور اس نے زیادہ فعال کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ فوجی امداد کی صورت میں سوویت یونین مشتعل ہو جائے گا اس لیے کارٹر حکومت نے افغانستان میں غیر جنگی یا غیر مہلک امداد دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
ٹوبن لکھتے ہیں کہ ’’فیصلہ سازی میں بہت احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور کسی جارحیت کو دعوت نہیں دی گئی۔‘‘
ٹوبن کے مطابق صدر کارٹر نے تین جولائی 1979 کو سی آئی اے کو افغانستان میں جنگجوؤں کی مدد کی اجازت دی اور چھ لاکھ 95 ہزار ڈالر کی امداد جاری کی گئی۔ اگست کے وسط تک مجاہدین کو نقدی، طبی آلات اور ریڈیو ٹرانسمیٹر فراہم کرنے کے پاکستان کے انٹیلی جینس ادارے آئی ایس آئی کو پانچ لاکھ 75 ہزار ڈالر دیے گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ امداد بہت زیادہ نہیں تھی لیکن دو پہلوؤں سے یہ غیر معمولی ضرور تھی۔ اس امدادی پروگرام نے امریکہ کو پاکستانی انٹیلی جینس کے ذریعے مجاہدین سے رابطے قائم کرنے میں مدد دی اور یہ رابطے سوویت حملے کے بعد انتہائی کار آمد ثابت ہوئے۔
ٹوبن کے بقول اسی امداد کی وجہ سے امریکہ کے عزائم اس کے اتحادیوں پاکستان اور سعودی عرب پر بھی واضح ہو گئے تھے کیوں کہ یہ ممالک خطے میں امریکہ کے کم ہوتے اثر و رسوخ کی وجہ سے فکر مند تھے۔
کارٹر کے امدادی پروگروام کو سرد جنگ میں آنے والی شدت کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ فروری 1979 میں آنے والے ایران کے انقلاب نے خطے میں امریکہ کو ایک اہم اسٹریٹجک اتحادی سے محروم کردیا تھا۔
ٹوبن لکھتے ہیں کہ یہی وجہ تھی کی برژینسکی نے اس وقت سوویت یونین کو مشتعل کرنے کے بجائے ماسکو کو روکنے کے لیے ایک غیر محسوس مداخت شروع کی تھی۔
ان کے بقول 1979 کے وسط تک بنیادی مقاصد یہی تھے کہ کسی بھی طریقے سے افغانستان میں سوویت یونین کی پیش قدمی روکی جائے۔
فرانسس میریون یونی ورسٹی سے تعلق رکھنے والے مؤرخ اور کارٹر کی خارجہ پالیسی پر ایک کتاب کے مصنف اسکاٹ کوفمین کا کہنا ہے کہ ان مسائل کے ساتھ ساتھ آئندہ صدارتی الیکشن بھی کارٹر کے پیشِ نظر تھا۔
وی او اے سے بات کرتے ہوئے کوفمین نے وی او اے کو بتایا کہ کارٹر کو پہلے ہی نکاراگوا میں کمیونسٹوں سے ’ہارنے‘ اور سوویت یونین پر ’نرمی‘ اختیار کرنے کے تاثر کی وجہ سے تنقید کا سامنا تھا۔
’کارٹر ڈاکٹرائن‘
کوفمین کے خیال میں کارٹر سے متعلق یہ تاثر درست نہیں ہے کہ کارٹر خارجہ پالیسی سے بالکل بے خبر تھے۔ ان کے بقول وہ رچرڈ نکسن یا جیرالڈ فورڈ جیسا تجربہ نہیں رکھتے تھے لیکن وہ جارجیا کے گورنر کے طور پر غیر ملکی دورے کر چکے تھے اور کئی بین الاقوامی فورمز میں شریک ہو چکے تھے۔
انہوں نے کہا کہ کم از کم 1978 میں مجاہدین کی مدد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی پالیسی میں سختی لا رہے تھے۔
کوفمین کے مطابق کارٹر کا اینٹی سوویت مؤقف دراصل اس دور میں کانگریس کے اندر سوویت یونین کے خلاف بڑھتے ہوئے جذبات، برژینسکی کے اثرات اور اپنے فکری رجحانات کی وجہ سے تھا۔
افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد خلیجِ فارس سے متعلق کارٹر جارحانہ پالیسی ’’کارٹر ڈاکٹرائن‘‘ سے واضح ہوتی ہے۔ کارٹر نے 1980 میں اسٹیٹ آف یونین خطاب میں اپنی نئی پالیسی کا اعلان کیا تھا جس میں انہوں ںے خلیجِ فارس پر سوویت یونین کا قبضہ روکنے کے لیے ہر ضروری اقدام کرنے کا اعلان کیا۔
افغانستان پر سوویت یونین کے حملے نے کارٹر حکومت کے لیے خطے میں اسٹیک بڑھا دیے تھے۔ 28 دسمبر 1979 کو جس دن سوویت کمانڈوز نے افغان صدر حفیظ اللہ امین کو کابل میں قتل کیا تو کارٹر نے مجاہدین کو ہتھیار اور تربیت دینے کا فیصلہ کرلیا اور دو ہفتے سے بھی کم وقت میں ہتھیاروں کی پہلی کھیپ پاکستان پہنچ گئی۔
کارٹر 1980 کا الیکشن ریگن سے ہار گئے لیکن ریگن ںے افغانستان سے متعلق کم و بیش وہی پالیسی اختیار کی جو ان کے پیش رو کارٹر نے بنائی تھی۔ کارٹر سوویت یونین کی براہ راست مداخلت سے قبل ہی افغانستان میں خفیہ امداد کے لیے سالانہ لاکھوں ڈالر کی فراہمی کا فریم ورک تیار کرکے گئے تھے۔ ٹوبن کے بقول، ریگن حکومت نے سوویت یونین کو ڈرانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اسے شکست بھی دی۔
ٹوبن کا کہنا ہے کہ کارٹر کی حکومت پر یہ تنقید بلا جواز ہے کہ انہوں نے دفاعی امور میں کمزوری دکھائی۔ کیوں کہ 1980 کی دہائی میں جو اقدامات کیے گئے اس کے لیے بنیاد وہی فراہم کر کے گئے تھے۔
ان کے بقول کارٹر کو خارجہ پالیسی میں ناکامیوں کی وجہ سے تنقید کا ہدف بنایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود جنوری 1981 میں جب وہ سبکدوش ہوئے تو وہ آنے والی ریگن حکومت کے لیے خارجہ پالیسی کی واضح سمت دے کر گئے تھے۔ اسی پالیسی نے ایک دہائی بعد سرد جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار کی جس کے بارے میں اس وقت سوچنا بھی ممکن نہیں تھا جب جنوری 1977 میں کارٹر نے صدارت سنبھالی تھی۔
فورم