|
لاہور -- رواں سال پاکستان میں کپاس کی فصل میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کپاس کے سیزن میں روئی کی 60 لاکھ گانٹھوں کی کم پیداوار کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتِ حال میں ایک طرف ملک کی کپڑے کی صنعت متاثر ہونے کا خدشہ ہے تو وہیں روئی کی درآمد سے اخراجات بھی بڑھ سکتے ہیں۔
ملک میں کپاس کی پیداوار میں کمی کپاس کی کاشت والے دو صوبوں پنجاب اور سندھ میں دیکھی جا رہی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق رواں سال ایک ملین ہیکٹر رقبے میں کپاس کاشت ہی نہیں کی گئی جس سے فصل کی پیداوار بھی کم ہوئی۔
'گانٹھوں کی تعداد میں کمی 55 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے'
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ڈاکٹر جسومل لیمانی کہتے ہیں کہ رواں سال کپاس کی پیداوار گزشتہ سال کی نسبت 33 فی صد کم ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ رواں سال روئی کی گانٹھوں میں کمی کی تعداد 55 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ملک بھر میں روئی کی گانٹھوں کی تعداد 85 لاکھ تھی۔ رواں برس صوبہ سندھ سے ابھی تک 27 لاکھ اور پنجاب سے 24 لاکھ گانٹھیں مارکیٹ میں آئی ہیں۔
کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ملتان کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر صغیر احمد کے مطابق 2024 میں ملک بھر میں 20 لاکھ ہیکٹرز پر کپاس کی فصل کاشت کی گئی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ 2024 میں ایک کروڑ آٹھ لاکھ 74 ہزار ملین روئی کی گانٹھوں کا ہدف تھا جس کے برعکس ابھی تک جو پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی رپورٹ آئی ہے اُس کے مطابق 51 لاکھ بیلز ہوئیں ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ رواں سال زیادہ سے زیادہ 10 لاکھ مزید بیلز آنے کی توقع ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ رواں سال اب تک گزشتہ سال کی نسبت صوبہ پنجاب میں 34 فی صد اور ملکی سطح پر 33 فی صد کمی کا سامنا ہے۔ اِسی طرح سیزن کے اختتام تک مجموعی طور پر کپاس کی پیداوار میں 35 فی صد سے 40 فی صد کمی کا سامنا ہو گا۔
محکمہ زراعت پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل نوید عصمت کاہلوں کے مطابق صوبہ پنجاب میں کپاس کی پیداوار اپنے مقرر کردہ ہدف سے کم ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے صوبے میں جو پیداواری ہدف مقرر کیا تھا وہ حاصل نہیں ہو سکا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس اِسی مہینے 77 لاکھ 53 ہزار روئی کی گانٹھوں کی پیداوار ہوئی تھی۔ اِسی طرح گزشتہ سال مجموعی طور پر کپاس کی پیداوار ایک کروڑ تین لاکھ بیلز ہوئی تھی۔
پیداوار میں کمی کیوں؟
کپاس کی پیداوار میں اس بڑی کمی کو مختلف مسائل کی وجوہات قرار دیا جا رہا ہے جن میں جون اور جولائی کے مہینوں میں شدید گرمی کی لہر اور اگست میں تیز بارشیں ہیں۔
بوائی کی شرح میں کمی، کپاس کی فصل پر مکھیوں اور کیڑوں کے حملے اور منافع میں کمی اور زیادہ اخراجات بھی اس کے عوامل ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیاں
یاد رہے کہ رواں سال پاکستان میں گندم، چاول، مکئی، تل، آلو، دالیں اور آم کی فصل موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے متاثر ہو چکی ہیں۔
ڈی جی محکمہ زراعت پنجاب نوید عصمت کاہلوں کے مطابق پیداوار میں کمی کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ رواں سال گرمی کی شدت میں اچانک اضافہ ہوا تھا۔ فصل کی بوائی کے ابتدائی دِنوں میں ہی درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ یہ پودا زیادہ سے زیادہ 32 ڈگری سینٹی گریڈ سے 33 ڈگری سینٹری گریڈ تک پلنے والا پودا ہے۔
اُن کے بقول صوبے کے جنوبی اضلاع میں گرمیوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔ گرمی کی لہر کی وجہ سے کپاس کی فصل پر پھول نہیں آ سکا اور جب دوبارہ پھل نکلنے کا وقت آیا تو بارشیں شروع ہو گئیں جس کی وجہ کپاس کی فصل کو زیادہ نقصان پہنچا ہے۔
ڈاکٹر صغیر احمد سمجھتے ہیں کہ رواں سال گرمی کی طویل اور شدید لہر کی وجہ سے فصل کی بوائی کے موقع پر پھول جھڑ گیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کی نسبت رواں سال فصل کی بوائی کے مہینوں میں گزشتہ سال تقریباً سات فی صد زیادہ درجہ حرارت رہا ہے۔ جس سے فصل پر پھل تو آیا لیکن گرمی کی شدت کی وجہ سے وہ گرتا چلا گیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اِسی طرح ستمبر میں بارشوں نے بھی کپاس کی فصل کو متاثر کیا ہے جن علاقوں میں فصل پکی ہوئی تھی تو بارشوں کی وجہ سے اُسے نقصان ہوا ہے۔
ڈاکٹر جسومل لیمانی ملک میں کپاس کی پیداوار کم ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں کپاس پیدا کرنے والے کاشت کار کو اُس کی مناسب قیمت نہیں مل پا رہی ہے جس کی وجہ سے کپاس کا کاشت کار دوسری فصلیں اُگانے لگا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ کچھ سال پہلے تک کپاس اُگانے والا کسان ابھی گنا، مکئی، چاول اور دیگر فصلوں پر منتقل ہو گیا ہے۔
کیڑوں کا حملہ
ڈاکٹر صغیر احمد سمجھتے ہیں کہ کپاس کی فصل پر سفید مکھی کے حملے نے بھی فصل کو متاثر کیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ صوبہ پنجاب میں ضلع بہاولنگر، وہاڑی، ملتان، بہاولپور اور رحیم یار خان تک کے اضلاس میں کپاس کی فصل پر سفید مکھی کے حملے نے شدید متاثر کیا ہے۔
زمین کی زرخیزی میں کمی
ڈائریکٹر ڈاکٹر صغیر احمد کے مطابق کپاس کی فصل میں کمی کی تیسری وجہ زمین کی زرخیزی بھی ہے جو کسی حد تک متاثر ہوئی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ کاشت کار حضرات زمین کی زرخیزی اور اُس کی صحت پر بہت کم توجہ دیتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ جو کاشت کار زمین کی صحت پر توجہ دیتے ہیں اُن کی پیداوار اچھی ہے جو توجہ نہیں دیتے اُن کی فصل متاثر ہوئی ہے۔
حکومت کی عدم دلچپسی
ڈاکٹر جسومل لیمانی کا کہنا تھا کہ ملک میں حکومت کی کاٹن کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں ہے۔ کپاس کی فصل پر ٹیکسوں کی شرح بڑھ گئی ہے۔ موجودہ اور ماضی کی حکومتوں نے کپاس پر ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا ہے۔
اُن کے مطابق ملک بھر میں مکئی اور چاول کی فصل پر کوئی ٹیکس نہیں ہے مگر کپاس کی ہر مصنوعات جیسا کہ بنولہ، تیل پر اور دیگر چیزوں پر 22 فی صد تک ٹیکسوں کی شرح ہے۔
ڈاکٹر جسومل لیمانی کےمطابق کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے اپنے خدشات حکومت تک پہنچائے ہیں لیکن ملک میں جاری بے یقینی کے باعث کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
نقصان کیا ہو گا؟
ڈاکٹر جسومل لیمانی کے مطابق کپاس کی پیداوار کم ہونے سے نقصان ملک کا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل صنعت کا انحصار کپاس پر پے اور ملک میں 60 فی صد روزگار اس شعبے سے منسلک ہے۔ اسی طرح ٹیکسٹائل مصنوعات ملکی برآمدات کا 60 فی صد ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ کپاس کی فصل کم ہونے سے 50 لاکھ سے زائد بیلز درآمد کرنا پڑ رہی ہیں جب کہ کپاس سے جڑی مصنوعات بیج اور تیل بھی باہر سے منگوایا جا رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ کپاس کی پیداوار کم ہونے اور دیگر مصنوعات میں بھی کمی کے باعث مجموعی طور پر نقصان 14 ارب ڈالر سے زائد ہو سکتا ہے۔
ڈی جی محکمہ ذراعت پنجاب نوید عصمت کاہلوں بتاتے ہیں کہ جو علاقے کپاس کی فصل کے لیے مختص ہیں وہاں کپاس ہی کاشت کی جا رہی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ کپاس کے کاشت والے علاقوں میں گنے کی فصل یا کوئی اور فصل کاشت نہیں کی جا رہی۔
اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب کے جنوبی اضلاع میں کاشت کار کپاس کاشت کرنا چاہتاہے اور کرتا بھی ہے کیوں کہ اُن اضلاع میں پانی کی کمی ہے اور کپاس کم پانی لینے والی فصل ہے۔
نوید عصمت کاہلوں کے مطابق حکومت صوبے میں کپاس کے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرتی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پہلے پاکستان کی اگر مجموعی درآمدات 25 ارب ڈالر سے 26 ارب ڈالر تک تھی تو اُس میں کپاس کا حصہ 14 ارب ڈالر سے زائد تھا۔
خیال رہے کہ پاکستان میں کپاس کی فصل اپریل سے مئی کے مہینوں میں بوئی جاتی ہے جب کہ فصل کی کٹائی ستمبر سے اکتوبر تک ہوتی ہے جس کے بعد فصل سے حاصل ہونے والی روئی کی پھٹیوں سے گانٹھیں بننے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
فورم