’’والد رمضان سے پہلے ہمیں بلا کر پسندیدہ چیزوں کی فہرست بناتے تھے۔ والدہ کا تعلق ایران سے تھا، وہ ایسی کئی ڈشز بناتی تھیں جو آج کہیں نظر نہیں آتیں۔ رمضان میں ایک دن سب ملازمین اور ان کے گھر والے ہمارے مہمان ہوتے تھے اور ہم ان کے میزبان۔‘‘ دیکھیے اداکارہ عذرا منصور کی رمضان کی یادیں۔
"گرمی میں پورا دن ندی میں بیٹھ کر افطار کا انتظار کرتے تھے۔ پہلے چاند نظر آنے کا فیصلہ مقامی سطح پر مولوی کرتے تھے۔ لیکن گزشتہ 50 سال سے ہم پاکستان کے ساتھ کشمیر میں روزہ رکھتے ہیں اور عید کرتے ہیں۔" دیکھیے سابق پرنسپل کشمیر لا کالج شیخ شوکت حسین کی 'ماضی کے رمضان' میں۔
"پہلے روزے پر بہت پیاس لگ رہی تھی تو چھپ کر پانی پی لیا تھا۔ گھر میں والدہ سادہ افطار پر زور دیتی تھیں اور پکوڑوں کا منع کرتی تھی۔ لیکن ہمیں ایسے روزے میں مزہ نہیں آتا تھا اور اگر ایسی افطاری ہوتی تھی تو ہم روزہ نہیں رکھتے تھے۔" دیکھیے مصنفہ عفت نوید کی یادیں وی او اے کی سیریز 'ماضی کے رمضان' میں۔
"کبھی کبھی امّی دہی جمانے کی کوشش کرتی تھیں لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی جما بھی ہو۔ جون چچا ہمیشہ چیختے تھے کہ میرے شکر پارے کو ہاتھ کیوں لگایا اب میں نہیں کھاؤں گا۔" دیکھیے معروف شاعر جون ایلیا کی بھتیجی شاہانہ رئیس امروہوی کی دلچسپ یادیں وائس آف امریکہ کی سیریز 'ماضی کے رمضان' میں۔
"فلائٹ میں مسافروں کا روزہ دیکھ کر ہم خوش ہوتے تھے کہ کام کم کرنا ہے۔ دورانِ پرواز روزہ رکھنے پر پہلے سخت پابندی نہیں تھی۔ کبھی کوئی پوچھ لیتا تو ہم جھوٹ بھی بول دیتے تھے کہ روزہ نہیں ہے۔" دیکھیے سابق فضائی میزبان رخشندہ پرویز کی دلچسپ یادیں وائس آف امریکہ کی سیریز 'ماضی کے رمضان' میں۔
’’سحری کے بعد سو جاتے تھے تو اٹھنے کے بعد شام کا انتظار ہوتا تھا کہ اذان کب ہوگی۔ دسترخوان پر سادہ ڈشیں ہوا کرتی تھیں۔ ہمارے دیہات میں فرمائشی طور پر کوئی چیز نہیں پکتی جو دستیاب ہو پکا لیا جاتا ہے۔ سب کچھ ہونے کے باوجود اب خوشی نہیں ہے پتا نہیں کیا راز ہے۔‘‘
"رمضان میں پرانی دلّی جیسا ماحول اور کہیں نہیں ملتا۔ پرانی دلّی میں آپ کسی کے گھر بلانے پر نہیں جاتے، بس پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں ہم جو کھانے کھاتے ہیں، وہ ذائقے دکانوں پر کسی کو نصیب نہیں ہوں گے۔" دیکھیے دلّی کی رہائشی ثنا خان کی یادیں وائس آف امریکہ کی سیریز 'ماضی کے رمضان' میں۔
"پڑدادا کہتے تھے کہ روزے وہ رکھتا ہے جس کے گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو۔ مشرقی پاکستان میں چنے کی دال بھگو کر بغیر اُبالے اس کی چاٹ بنتی تھی۔ ملٹری اکیڈمی میں ایک بار ہم سے روزے میں ڈیڑھ گھنٹہ قلابازیاں لگوائیں اور مشق کرائی گئی۔ ایک گھنٹے بعد ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ ہم کہاں ہیں۔"
"مجھے امّی نے کہا کہ ہم تمہارے ساتھ روزہ رکھیں گے۔ سحری میں ہر چیز کو دیکھ کر پوچھا کہ اس میں سحری کون سی ہے یہ تو دودھ جلیبی ہے۔ میں آج بھی شیر خرمے کو میٹھا نہیں سمجھتی بلکہ اسے عید سمجھتی ہوں۔" دیکھیے ماہرِ تعلیم عارفہ سیّدہ زہرہ کے بچپن کی یادیں وائس آف امریکہ کی سیریز 'ماضی کے رمضان' میں۔
"جب ہم لوگ شوٹنگ کرتے تو علاقے کے لوگ ہمیں کہتے تھے کہ روزہ ہمارے ساتھ کھول کر جانا۔ کئی مرتبہ تو ایسا ہوتا تھا کہ جاتے جاتے وہ افطار ہماری گاڑی میں رکھ دیتے تھے۔" دیکھیے فلم اسٹار غلام محی الدین کی رمضان کی یادیں وائس آف امریکہ کی سیریز 'ماضی کے رمضان' میں۔
"بہت سے لوگ گھروں کی دیوار میں سوراخ کرکے پورا سال چاند کی گردش پر نظر رکھتے تھے۔ آس پاس کے علاقوں میں چاند کی خبر دینے کے لیے پہاڑوں پر الاؤ جلایا جاتا تھا۔" دیکھیے سابق سول سرونٹ محمد ولی خان کی رمضان کی یادیں وی او اے کی سیریز 'ماضی کے رمضان' میں۔
"سحری میں میرٹھ کے مشہور گولہ کباب بنتے تھے جن کا مسالہ اماں ہاتھ سے سِل پر پیستی تھیں۔ کوفتوں کے ساتھ ایسی باریک باریک چپاتیاں بنتی تھیں جو دو نوالوں ہی میں کھا لی جاتیں۔" دیکھیے رضیہ عابد کی رمضان کی یادیں وائس آف امریکہ کی سیریز 'ماضی کے رمضان' میں۔
مزید لوڈ کریں