رسائی کے لنکس

تخلیق کائنات کا راز، گاڈ پارٹیکل دریافت


پارٹیکل فزکس کی زیر زمین تجربہ گاہ لارج ہیڈرن کولائیڈر
پارٹیکل فزکس کی زیر زمین تجربہ گاہ لارج ہیڈرن کولائیڈر

سائنس دانوں نے کہاہے کہ انہیں اپنے دعوے کی صداقت پر ننانوے اعشاریہ ننانوے فی صد تک یقین ہے۔

please wait

No media source currently available

0:00 0:00:00 0:00


پارٹیکل فزکس سے متعلق دنیا کی ایک بڑی تجربہ گاہ لارج ہیڈرن کولائیڈر کے سائنس دانوں نے ایک تاریخی اعلان کرتے ہوئے ہوئے کہا ہے کہ اس مختصر ترین جوہری ذرے کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی ہے جس کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کائنات کی تخلیق میں اس کا بنیادی کردار ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق کونسل کے سربراہ پروفیسر جان وومر سلی نے لندن میں نامہ نگاروں سے کہا کہ یہ دریافت دنیا کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہےاوریہ سائنس کی تاریخ کا یک یادگار دن ہے۔

سائنس دانوں نے کہاہے کہ انہیں اپنے دعوے کی صداقت پر ننانوے اعشاریہ ننانوے فی صد تک یقین ہے۔

سائنس دان کئی برسوں سے ایک ایسے خیالی ذرے کے وجود کے امکان پر تحقیق کررہےتھے کہ جن کے بارے میں یہ ان کا خیال تھا کہ وہ ایک ایسی اکائی ہے کائنات میں موجود تمام قوتوں اور جوہری ذرات کو جوڑ کرکائنات کی تخلیق اور اسے قائم رکھنے میں مدد دے رہاہے۔

اس سلسلے کی سب سے بڑی تجربہ گاہ فرانس اور سوئٹزر لینڈ کی سرحد پرزیر زمین ہے۔جسے لارج ہائیڈرون کولائیڈر یا ایل ایچ سی کہاجاتا ہے۔ یہ لیبارٹری تقربیاً27 کلومیٹر لمبی سرنگ میں واقع ہے اور زمین کی سطح سے اس کی گہرائی574 فٹ ہے۔کئی ارب ڈالر سے تعمیر کی جانے والی اس تجربہ گاہ میں دس ہزار سائنس دانوں کے کام کرنے کی سہولت موجود ہے۔ یہاں کام کا آغاز ستمبر2008ء میں ہوا تھا اور یہاں پر پاکستان سمیت تقریباً ایک سو ممالک سے تعلق رکھنے والے سائنس دان کام کرچکے ہیں۔

دوسری لیبارٹری امریکی شہر شکاگو کے قریب واقع فربی لیب ہے۔جس کی لمبائی تقریباً ساڑھے چھ کلومیٹر ہے اور یہاں تحقیق کا آغاز ایل ایچ سی سے پہلے ہواتھا۔

اس تاریخی اعلان کے لیے سائنس دانوں کی ایک ٹیم جنیوا میں اکھٹی ہوئی اوراس تاریخ سازموقع پرپروفیسر پیٹر ہگز بھی موجود تھے۔ یہ وہ سائنس دان ہیں جنہوں نے تقریباً 50 سال پہلے اس پراسرار جوہری ذرے کا نظریہ پیش کیاتھا۔


شروع میں سائنس دانوں کا خیال تھا کہ سب کچھ ایک خود کار طریقے سے ہورہاہے، نئی دنیائیں بن رہی ہیں، پرانی دنیائیں فنا ہورہی ہیں، مگر 60 کے عشرے میں ایک سائنس دان پیٹر ہگز نے ایک نیا تصور پیش کیا۔ ان کا کہناتھا کہ یہ سب کچھ ایک نادیدہ قوت کررہی ہے۔توانائی اس وقت تک مادے کی شکل اختیار نہیں کرسکتی جب تک اسے ایک نادیدہ قوت کی تائید حاصل نہ ہو۔ اس نامعلوم قوت کا نام پیٹر ہگز کے نام پر ہگز بوسن پڑ گیا۔ لیکن بعدازاں اسی موضوع پر ایک اور سائنس دان لیون لیڈرمن کی کتاب ’گاڈ پارٹیکل‘ شائع ہونے پر ہگز بوسن کو گاڈ پارٹیکل یا خدائی صفات کا ذرہ کہاجانے لگا۔

اس نظریے میں کہا گیا ہے کہ دکھائی نہ دینے والی کائنات کی اس سب سے چھوٹی اکائی کے اندر ایک ایسی کشش یا توانائی موجود ہے جو دوسری چیزوں کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔ اور یہی قوت کائنات کی ہر چیز کو وجود میں لانے کا اصل سبب ہے۔

کائنات کی ہر چیز کا سب سے چھوٹا جزو اٹیم ہے۔ ایٹم کا سب سے چھوٹا حصہ الیکٹران ہے۔ جس کا ایک مخصوص حجم ہے جو اسے گاڈ پارٹیکل سے ملاہے۔

کائنات کی ہر چیز کی تخلیق میں گارڈ پارٹیکل کا کرداربنیادی ہے اور یہی پراسرار ذرہ انہیں قائم رکھے ہوئے ہے۔

جدید طبعیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ کائنات بنانے میں گاڈ پارٹیکل نےمرکزی کردار ادا کیا ہے۔ جسے ثابت کرنے کے لیے وہ کئی برسوں سے تجربات کررہے تھے۔


دوسری جانب کئی سائنس دانوں اس شبے کا اظہار کیا ہے کہ لیبارٹری ٹیسٹ میں جس ذرے کی نشان دہی ہوئی ہے ، آیا وہ ہگزبوسن ہی ہے۔
  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG