بھارت نے مہاتما گاندھی کے لندن میں نیلام ہونے والے خطوط اور دیگر مسودات کو نیلامی سے پہلے ہی خرید لیا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ مسودات کا یہ مجٕموعہ، بھارت کے تحریک آزادی کے رہنما کی زندگی اور جد جہد پر نئی روشنی ڈالے گا۔
بھارتی حکومت کی جانب سے خریدے گئے یہ خطوط، تصاویر اور اور دیگر مسودات، ایک جرمن یہودی آرکیٹیکٹ ہرمن کیلن باخ کے پاس تھے، جن سے 1904 ء میں مہاتما گاندھی کی ملاقات جنوبی افریقہ میں ہوئی تھی اور دونوں گہرے دوست بن گئے تھے۔
اس پہلے کہ سوتھ بیز نامی معروف نیلام گھر منگل کے روز لندن میں اس مجموعہ کی نیلامی کرتا، بھارتی حکومت نے ان تاریخی مسوادات کے مجموعے کو گیارہ لاکھ ڈالر میں کیلن باخ کے رشتے داروں سے خرید لیا۔
ان ہزاروں مسودات میں سے چند خود گاندھی جی کے لکھے ہوئے ہیں۔ باقی ان کے دوستوں اور اہلِ خانہ کے تحریر کردہ ہیں۔
گاندھی جی کی یہ خط و خطابت نئی دِلی میں قائم نیشنل آرکائیوز میں رکھی جائے گی۔
اس ادارے کے سربراہ مشیر حسین کہتے ہیں کہ یہ ایک اہم مجٕوعہ ہے۔ اس میں وہ مراسلت بھی شامل ہے جو انہوں نے جنوبی افریقہ میں قیام کے دوران کی تھی۔ اس میں ان کی اپنے بیٹوں اور کالن باخ سے کی گئی خط و خطابت بھی شامل ہے۔ یہ ابتدئی برسوں سے متعلق ہے۔ یہ تعمیری سال تھے۔ اس لئے جنوبی افریقہ میں ان کے قیام سے متعلق کوئی بھی چیز بہت منکشف ہو گی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ جنوبی افریقہ میں گزرے وقت نے مہاتما گاندھی کی سوچ پر گہرا اثر چھوڑا۔ وہیں پر انہوں نے شہری حقوق سے متعلق اپنے کام کا آغاز کیا تھا اور، وہیں پر تعصب کا سامنا کرتے ہوئے، انہوں نے اپنے عدم تشدد کی مزاحمت کے نظریے کو فروغ دیا تھا۔
گاندھی جی کے پڑ پوتے ٹوشار گاندھی، ممبئی میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اُن کی یہ خطوط ، تحقیق کاروں کے لئے، اُن کی زندگی میں جھانکنے میں بڑی مدد کریں گے۔ بھارت کی تحریکِ آزادی کے رہنما ، گاندھی جی کو باپو یعنی باپ بھی کہا جاتا تھا۔
تشار گاندھی کہتے ہیں کہ اُن کے ابتدائی دوستوں میں سے، ہرمن کیلن باخ کے ساتھ، یہ اُن کی پہلی گہری دوستیوں میں سے ایک تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ وکالت سے نکل کر ایک لیڈر کے طور پر ابھر رہے تھے ۔ اس لئے یہ ان کے ارتقائی عمل کو سمجھنے میں خاصے مددگار ہو ں گے۔ ان کی زندگی کے ایک طویل عرصے تک یہ دوستی قائم رہی، سو ،اُن کی ذاتی زندگی کے اس دور پر بھی یہ روشنی ڈالتےہیں۔
جنوبی افریقہ سے لوٹنے کے بعد، بھارت میں گزری ان کی زندگی پر بھی، یہ مسودات ایک بصیرت بخشتے ہیں۔
گزشتہ سال پولیٹزر پرائز حاصل کرنے والے مصنف جوزف لیلی ویلڈ کی تصنیف کردہ گاندھی جی کی متنازع سوانح حیات میں، کالن باخ اور گاندھی جی کے درمیان دوستی سے بڑھ کر جنسی تعلقات کے تذکرے پر، بھارت میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ وہ کتاب ایسی خط و خطابت کا بھی ذکر کرتی ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دونوں کے درمیان جنسی تعلق قائم تھا۔ تاہم مصنف نے اس کی تردید کی ہے۔
ایک بھارتی تاریخ دان نے ان خطوط کو کیلن باخ کی رشتے دار پڑ پوتی کے گھر میں دریافت کیا تھا۔
ماضی میں، بھارت نے گاندھی جی سے متعلقہ اشیا کی نجی نیلامی پر احتجاج کیا تھا۔ 2009ء میں، ایک بھارتی بیوپاری نے، نیویارک میں نیلامی کے لئے پیش کی گئی ان اُن کی چند اشیا کو خریدا تھا۔ بھارت کا کہنا ہے کہ مہاتما گاندھی سے متعلقہ اشیا پر ملک کا حق ہے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے خریدے گئے یہ خطوط، تصاویر اور اور دیگر مسودات، ایک جرمن یہودی آرکیٹیکٹ ہرمن کیلن باخ کے پاس تھے، جن سے 1904 ء میں مہاتما گاندھی کی ملاقات جنوبی افریقہ میں ہوئی تھی اور دونوں گہرے دوست بن گئے تھے۔
اس پہلے کہ سوتھ بیز نامی معروف نیلام گھر منگل کے روز لندن میں اس مجموعہ کی نیلامی کرتا، بھارتی حکومت نے ان تاریخی مسوادات کے مجموعے کو گیارہ لاکھ ڈالر میں کیلن باخ کے رشتے داروں سے خرید لیا۔
ان ہزاروں مسودات میں سے چند خود گاندھی جی کے لکھے ہوئے ہیں۔ باقی ان کے دوستوں اور اہلِ خانہ کے تحریر کردہ ہیں۔
گاندھی جی کی یہ خط و خطابت نئی دِلی میں قائم نیشنل آرکائیوز میں رکھی جائے گی۔
اس ادارے کے سربراہ مشیر حسین کہتے ہیں کہ یہ ایک اہم مجٕوعہ ہے۔ اس میں وہ مراسلت بھی شامل ہے جو انہوں نے جنوبی افریقہ میں قیام کے دوران کی تھی۔ اس میں ان کی اپنے بیٹوں اور کالن باخ سے کی گئی خط و خطابت بھی شامل ہے۔ یہ ابتدئی برسوں سے متعلق ہے۔ یہ تعمیری سال تھے۔ اس لئے جنوبی افریقہ میں ان کے قیام سے متعلق کوئی بھی چیز بہت منکشف ہو گی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ جنوبی افریقہ میں گزرے وقت نے مہاتما گاندھی کی سوچ پر گہرا اثر چھوڑا۔ وہیں پر انہوں نے شہری حقوق سے متعلق اپنے کام کا آغاز کیا تھا اور، وہیں پر تعصب کا سامنا کرتے ہوئے، انہوں نے اپنے عدم تشدد کی مزاحمت کے نظریے کو فروغ دیا تھا۔
گاندھی جی کے پڑ پوتے ٹوشار گاندھی، ممبئی میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اُن کی یہ خطوط ، تحقیق کاروں کے لئے، اُن کی زندگی میں جھانکنے میں بڑی مدد کریں گے۔ بھارت کی تحریکِ آزادی کے رہنما ، گاندھی جی کو باپو یعنی باپ بھی کہا جاتا تھا۔
تشار گاندھی کہتے ہیں کہ اُن کے ابتدائی دوستوں میں سے، ہرمن کیلن باخ کے ساتھ، یہ اُن کی پہلی گہری دوستیوں میں سے ایک تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ وکالت سے نکل کر ایک لیڈر کے طور پر ابھر رہے تھے ۔ اس لئے یہ ان کے ارتقائی عمل کو سمجھنے میں خاصے مددگار ہو ں گے۔ ان کی زندگی کے ایک طویل عرصے تک یہ دوستی قائم رہی، سو ،اُن کی ذاتی زندگی کے اس دور پر بھی یہ روشنی ڈالتےہیں۔
جنوبی افریقہ سے لوٹنے کے بعد، بھارت میں گزری ان کی زندگی پر بھی، یہ مسودات ایک بصیرت بخشتے ہیں۔
گزشتہ سال پولیٹزر پرائز حاصل کرنے والے مصنف جوزف لیلی ویلڈ کی تصنیف کردہ گاندھی جی کی متنازع سوانح حیات میں، کالن باخ اور گاندھی جی کے درمیان دوستی سے بڑھ کر جنسی تعلقات کے تذکرے پر، بھارت میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ وہ کتاب ایسی خط و خطابت کا بھی ذکر کرتی ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دونوں کے درمیان جنسی تعلق قائم تھا۔ تاہم مصنف نے اس کی تردید کی ہے۔
ایک بھارتی تاریخ دان نے ان خطوط کو کیلن باخ کی رشتے دار پڑ پوتی کے گھر میں دریافت کیا تھا۔
ماضی میں، بھارت نے گاندھی جی سے متعلقہ اشیا کی نجی نیلامی پر احتجاج کیا تھا۔ 2009ء میں، ایک بھارتی بیوپاری نے، نیویارک میں نیلامی کے لئے پیش کی گئی ان اُن کی چند اشیا کو خریدا تھا۔ بھارت کا کہنا ہے کہ مہاتما گاندھی سے متعلقہ اشیا پر ملک کا حق ہے۔