انتخابات میں شاختی کارڈ کی اہمیت پر لاس اینجلس ٹائمزمیں کالم نگار پال وہائٹ فیلڈ لکھتے ہیں کہ شناختی کارڈوں سے متعلق قوانین کو بُھول جایئے۔ امریکہ کو ایسے قوانین کی ضرورت ہے،جن کی مدد سے بیوقوف لوگوں کو ووٹ دینے سے باز رکھا جا سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا اشارہ اُن لوگوں کی طرف نہیں ہے، جنہیں آئین کے دیباچے تک کی خبر نہیں، یا جو آپ کو یہ تک نہیں بتا سکتے کہ پہلی ترمیم میں کیا لکھا ہوا ہے، یا یہ کی سپریم کورٹ میں ججوں کی مجموعی تعداد کیا ہے۔ مضمون نگار کا کہنا ہے کہ وُہ ایسے افراد کی مثالیں دے سکتے ہیں ۔ جنہیں یہ تک نہیں معلوم کہ امریکی کانگریس کےکون سے دوایوان ہیں ۔ یا یہ کہ کانگریس میں اُن کے حلقے کی کون نمائندگی کرتا ہے۔
لیکن اگر آپ نومبر کے صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے جائیں۔ اور اگر کوئی انتخابی کارندہ آپ سے یہ سوال کرے کہ آیاصدر اوباما مسلمان ہیں یا عیسائی اور آپ نے جواب دیا کہ وُہ تو مسلمان ہیں، تو پھر ظاہر ہے کہ آپ کو بیوقوف ہونےکے ناطے خودبخود ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم کردیا جائے گا۔
مضمون نگار نےپِو ریسرچ سینٹرایک تازہ جائزہ کی طرف توجّہ دلائی ہے، جس سےیہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ جن امریکیوں نے صدر اوباما کے بارے میں یہ بتایا کہ وُہ عیسائی ہیں۔ اُن کا تناسُب49 فی صد ہے ، اور 17 فی صد امریکی ایسے بھی ہیں، جن کا ماننا ہے کہ مسٹر اوباما مسلمان ہیں۔
تازہ ترین جائزے سے پتہ چلا ہے کہ30 فی صد ری پبلکنوں اور34 فی صد قدامت پسند ری پبلکنز کا بھی یہی خیال ہے۔مضمون نگارکے خیال میں اس سے صرف یہ دو نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں، یعنی یا تو یہ لوگ واقعتا چالاک ہیں،اور اُنہیں رائے عامہ کا جائزہ والوں کو اُلّو بنانے میں مزہ آتا ہے، یا پھر وُہ واقعتاٍ بیوقوف ہیں۔
مسٹر اوباما کے مدّ مقابل ری پبلکن اُمّید وار اور میساچُوسیٹس گورنر مِٹ رامنی کو مسٹر اوباما کے مقابلے میں کمتر درجےکامذہبی تشخص کا مسلہ درپیش ہے ۔ جن لوگوں کا جائزہ لیا گیا اُن میں سے پُورے 60 فی صد سے زیادہ کو معلوم تھا کہ وُہ عقیدے کے اعتبار سے مارمن ہیں ، جب کہ32 فی صد کو معلوم نہیں تھا کہ اُن کا کیا مسلک ہے ۔
امریکہ میں غربت کی بڑھتی ہوئی شرح۔ فلاڈلفیا انکوائرر
اخبار فلاڈلفیا انکوائرر کا اداریہ امریکہ میں غُربت کے بارے میں کہتا ہے کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ غُربت کے خلاف1960 کی دہائی میں جو جنگ لڑی گئی تھی ، وُہ کامیاب ہوئی تھی ، تو آپ کو دوبارہ سوچنا پڑے گا۔ موسم خزاں میں امریکہ کے 2011 کے بارے میں جو اعدادوشمار آنے والے ہیں، اُن سے پتہ چلے گا کہ1965کے بعد سے امریکہ میں غُربت اپنی سب سے اونچی سطح کو پہنچ گئی ہے ۔ 2010 میں یہ سطح 15 اعشاریہ ایک فی صد تھی، اور ایک سال بعد اس میں صفر اعشاریہ ایک فی صد اضافہ یقینی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ غُربت کے خلاف نصف صدی کے دوران جو پیشرفت ہوئی تھی ا ُس میں سے تقریباًٍ نِصف غتر بُود ہو چکی ہے۔جو مالیاتی بُحران اور اس کے بعد آنے والی کساد بازاری سے ہونے والی بربادی کا مزید ثبُوت ہے۔ خاص طور پر اُن لوگوں کے لئے جو مصنوعات یا تعمیرات کے شُعبوں سے وابستہ رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں نے جو اندازہ لگایا ہے۔ اُس کے مطابق چار کروڑ امریکی، یا ہر چھ میں سے ایک افلاس کا شکار ہو چُکے تھے۔
افغانستان کی ناقص سیکیورٹی تعمیرات۔ وال سٹریٹ جنرل
وال سٹریٹ جرنل کے مطابق افغانستان میں ایک امریکی معائنہ ٹیم نے رپورٹ دی ہے کہ امریکی امداد سے افغان پولیس کے لئے جو سرحدی چوکیاں تعمیر کی گئی تھیں، اُ ن میں سےبیشتر یا تو افغان چھوڑ چکے ہیں یا پھر انہوں نے ان پر سرے سے قبضہ ہی نہیں کیا، جس کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سیکیورٹی کے فرائض مقامی پولیس کوسپرد کر نے کا وقت آئے گا تو یہ کس طرح ہوگا۔
معائنہ ٹیم نےاس سال جنوری سے جولائی کے درمیانی عرصے میں افغانستان میں جو جائزہ لیا ہے۔ اُس میں ایسے بُہت شواہد سامنے آئے ہیں۔ کہ ان اڈّ وں کی تعمیر کا کام ناقص ہے۔ جنریٹروں میں استعمال ہونے والی پائپوں سے ایندھن لیک ہونے سے آگ کا مسلسل خطرہ موجود رہتا ہے۔ نکاسی کے پائپ نہ لگانے کی وجہ سے پانی سےنقصاں ہوتا رہتا ہے ۔ دروازے ٹھیک طرح سے نہیں لگائے گئے، جس کی وجہ سے وہ بند ہی نہیں ہوتے ۔
ایک جگہ معائینہ ٹیم کے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی کہ ایک اڈّے کے کنویں کے چھپر کو مرغی خانے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور اس طرح حفظان صحت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اخبار کے بقول یہ ان بہت ساری سیکیورٹی تنصیبات میں شامل ہیں۔ جو ایک عشرے پر مُحیط تعمیری کام کے بعد افغان حکومت کو امریکہ اور دنیا کے ددوسرے مخیّر ملکوں کی جانب سے حوالے کی جایئں گی،2001 سےامریکہ کی طرف سے افغانستان کی تعمیر نو کے لئے90 ارب ڈالر دئیے جا چُکے ہیں ۔ جن میں سے 52 ارب ڈالر افغان سیکیورٹی افواج کے لئے وقف ہیں ۔
لیکن اگر آپ نومبر کے صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے جائیں۔ اور اگر کوئی انتخابی کارندہ آپ سے یہ سوال کرے کہ آیاصدر اوباما مسلمان ہیں یا عیسائی اور آپ نے جواب دیا کہ وُہ تو مسلمان ہیں، تو پھر ظاہر ہے کہ آپ کو بیوقوف ہونےکے ناطے خودبخود ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم کردیا جائے گا۔
مضمون نگار نےپِو ریسرچ سینٹرایک تازہ جائزہ کی طرف توجّہ دلائی ہے، جس سےیہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ جن امریکیوں نے صدر اوباما کے بارے میں یہ بتایا کہ وُہ عیسائی ہیں۔ اُن کا تناسُب49 فی صد ہے ، اور 17 فی صد امریکی ایسے بھی ہیں، جن کا ماننا ہے کہ مسٹر اوباما مسلمان ہیں۔
تازہ ترین جائزے سے پتہ چلا ہے کہ30 فی صد ری پبلکنوں اور34 فی صد قدامت پسند ری پبلکنز کا بھی یہی خیال ہے۔مضمون نگارکے خیال میں اس سے صرف یہ دو نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں، یعنی یا تو یہ لوگ واقعتا چالاک ہیں،اور اُنہیں رائے عامہ کا جائزہ والوں کو اُلّو بنانے میں مزہ آتا ہے، یا پھر وُہ واقعتاٍ بیوقوف ہیں۔
مسٹر اوباما کے مدّ مقابل ری پبلکن اُمّید وار اور میساچُوسیٹس گورنر مِٹ رامنی کو مسٹر اوباما کے مقابلے میں کمتر درجےکامذہبی تشخص کا مسلہ درپیش ہے ۔ جن لوگوں کا جائزہ لیا گیا اُن میں سے پُورے 60 فی صد سے زیادہ کو معلوم تھا کہ وُہ عقیدے کے اعتبار سے مارمن ہیں ، جب کہ32 فی صد کو معلوم نہیں تھا کہ اُن کا کیا مسلک ہے ۔
امریکہ میں غربت کی بڑھتی ہوئی شرح۔ فلاڈلفیا انکوائرر
اخبار فلاڈلفیا انکوائرر کا اداریہ امریکہ میں غُربت کے بارے میں کہتا ہے کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ غُربت کے خلاف1960 کی دہائی میں جو جنگ لڑی گئی تھی ، وُہ کامیاب ہوئی تھی ، تو آپ کو دوبارہ سوچنا پڑے گا۔ موسم خزاں میں امریکہ کے 2011 کے بارے میں جو اعدادوشمار آنے والے ہیں، اُن سے پتہ چلے گا کہ1965کے بعد سے امریکہ میں غُربت اپنی سب سے اونچی سطح کو پہنچ گئی ہے ۔ 2010 میں یہ سطح 15 اعشاریہ ایک فی صد تھی، اور ایک سال بعد اس میں صفر اعشاریہ ایک فی صد اضافہ یقینی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ غُربت کے خلاف نصف صدی کے دوران جو پیشرفت ہوئی تھی ا ُس میں سے تقریباًٍ نِصف غتر بُود ہو چکی ہے۔جو مالیاتی بُحران اور اس کے بعد آنے والی کساد بازاری سے ہونے والی بربادی کا مزید ثبُوت ہے۔ خاص طور پر اُن لوگوں کے لئے جو مصنوعات یا تعمیرات کے شُعبوں سے وابستہ رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں نے جو اندازہ لگایا ہے۔ اُس کے مطابق چار کروڑ امریکی، یا ہر چھ میں سے ایک افلاس کا شکار ہو چُکے تھے۔
افغانستان کی ناقص سیکیورٹی تعمیرات۔ وال سٹریٹ جنرل
وال سٹریٹ جرنل کے مطابق افغانستان میں ایک امریکی معائنہ ٹیم نے رپورٹ دی ہے کہ امریکی امداد سے افغان پولیس کے لئے جو سرحدی چوکیاں تعمیر کی گئی تھیں، اُ ن میں سےبیشتر یا تو افغان چھوڑ چکے ہیں یا پھر انہوں نے ان پر سرے سے قبضہ ہی نہیں کیا، جس کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سیکیورٹی کے فرائض مقامی پولیس کوسپرد کر نے کا وقت آئے گا تو یہ کس طرح ہوگا۔
معائنہ ٹیم نےاس سال جنوری سے جولائی کے درمیانی عرصے میں افغانستان میں جو جائزہ لیا ہے۔ اُس میں ایسے بُہت شواہد سامنے آئے ہیں۔ کہ ان اڈّ وں کی تعمیر کا کام ناقص ہے۔ جنریٹروں میں استعمال ہونے والی پائپوں سے ایندھن لیک ہونے سے آگ کا مسلسل خطرہ موجود رہتا ہے۔ نکاسی کے پائپ نہ لگانے کی وجہ سے پانی سےنقصاں ہوتا رہتا ہے ۔ دروازے ٹھیک طرح سے نہیں لگائے گئے، جس کی وجہ سے وہ بند ہی نہیں ہوتے ۔
ایک جگہ معائینہ ٹیم کے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی کہ ایک اڈّے کے کنویں کے چھپر کو مرغی خانے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور اس طرح حفظان صحت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اخبار کے بقول یہ ان بہت ساری سیکیورٹی تنصیبات میں شامل ہیں۔ جو ایک عشرے پر مُحیط تعمیری کام کے بعد افغان حکومت کو امریکہ اور دنیا کے ددوسرے مخیّر ملکوں کی جانب سے حوالے کی جایئں گی،2001 سےامریکہ کی طرف سے افغانستان کی تعمیر نو کے لئے90 ارب ڈالر دئیے جا چُکے ہیں ۔ جن میں سے 52 ارب ڈالر افغان سیکیورٹی افواج کے لئے وقف ہیں ۔